بینک دولت پاکستان نے زری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق نئی پالیسی میں شرح سود2.5 فیصد کم کردی گئی ہے‘ اعدادوشمار کے مطابق نئی مانیٹری پالیسی آ جانے کے بعد شرح سود17.5 سے کم ہو کر15فیصد پر آگئی ہے اس کے ساتھ اعدادوشمار کی روشنی میں بتایا جارہا ہے کہ ماہ اکتوبر میں ملک کے اندر مہنگائی کا گراف کم ہو کر مقررہ ہدف7.5 فیصد کے قریب ہوگیا ہے دریں اثناء وزیراعظم شہبازشریف کا ملک کے اقتصادی منظرنامے سے متعلق کہنا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے نئے پروگرام کی منظوری سے غیر یقینی کی کیفیت کم ہوگئی ہے اور یہ کہ شرح سود میں کمی سے کاروبار کو فروغ ملے گا ملک کے سخت تناؤ اور کشمکش کا شکارسیاسی منظرنامے کیساتھ معیشت کے شعبے میں مشکلات ایک تلخ حقیقت کی صورت اختیار کئے ہوئے ہیں‘ان مشکلات کا اثر براہ راست عوام پر بھی پڑ رہا ہے دوسری جانب ذمہ دار دفاتر سے معاشی صورتحال اور اقتصادی شعبے کیلئے بنائی جانے والی حکمت عملی کے تناظر میں خوش کن اعدادوشمار جاری ہوتے رہتے ہیں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ‘ حصص کی منڈی میں تیزی‘ اقتصادی اشاریوں میں بہتری‘ تجارتی خسارے میں کمی‘روپے کی قدر میں استحکام اور کبھی کبھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی سے متعلق رپورٹس حوصلہ افزا ہونے کے ساتھ اصلاح احوال کیلئے پیش رفت کا عندیہ دیتی ہیں لیکن اسکے نتیجے میں عام آدمی جب ریلیف کا کوئی احساس نہیں پاتا اور اس طرح سے یہ سب اس کیلئے بے معنی ہوجاتا ہے خوش کن اعدادوشمار میں بار بار یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کا گراف کم ہورہا ہے اب کی بار تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گرانی7.5 فیصد کے ہدف کے قریب پہنچ چکی ہے‘ دوسری جانب برسرزمین صورتحال روز بروز زیادہ تشویشناک ہوتی چلی جارہی ہے اوپن مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیاء من مانے نرخوں پر فروخت ہو رہی ہیں جبکہ چیک اینڈ بیلنس کا محدود انتظام چند اہم سڑکوں اور مارکیٹس میں کبھی کبھار کے چھاپوں تک ہی ہے نرخنامے کا اجراء اگر باقاعدہ ہے بھی تو اس پر عملدرآمدکے لئے کوئی موثر نگرانی دکھائی نہیں دیتی‘گلی محلے کی سطح پر تو چیک اینڈ بیلنس کے ذمہ دار دفاتر کی رسائی کا کوئی انتظام ہی نہیں‘ اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ جب تک اقتصادی اشاریوں میں بہتری کے ثمرات عوام تک نہ پہنچیں تو سارے اعدادوشمار صرف فائلوں تک ہی محدود رہ جاتے ہیں‘عوام کو درپیش مشکلات کا تقاضہ ہے کہ معاشی استحکام کے لئے سنجیدہ کوششوں کے ساتھ عوامی ریلیف کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں اور ان میں اضلاع اور تحصیل کی سطح پر انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے۔