قومی پرچم بردار فضائی کمپنی کی نجکاری کیلئے گزشتہ روز85 کی جگہ10ارب کی بولی قابل تشویش ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق جمعرات کو ہونے والی بولی میں صرف10 ارب کی پیشکش اور صرف ایک ادارے کا اس میں حصہ لینا اس حد تک پریشان کن ثابت ہوا کہ متعلقہ انتظامیہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی‘152 ارب روپے کے اثاثے رکھنے والی ائرلائنز کی بولی صرف10 ارب آنے پر قہقہے بھی بلند ہوئے‘ اس موقع پر بولی دہندہ کو پیشکش بڑھانے کا کہا گیا جس نے صاف انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پی آئی اے کے ذمے200 ارب روپے کے واجبات ہیں اور یہ کہ85 ارب روپے میں تو نئی فضائی کمپنی کھڑی ہو جائے گی‘ اس موقع پر باقی بڈرز پیچھے ہٹ گئے‘ ماضی قریب کی منافع بخش فضائی کمپنی آج اس حال میں ہے کہ اس کی خریداری کیلئے کوئی تیار نہیں اس کو اس حال تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں اس میں کس قدر سیاسی مداخلت ہوئی اور کس طرح اس کے وسائل پر بوجھ بڑھایا گیا اس پر بحث میں پڑے بغیر یقینی یہ بنانے کی ضرورت ہے کہ دیگر قومی اداروں سے متعلق سوچا جائے ؛دیکھا جائے کہ منافع بخش ادارے کس طرح سے اس حالت میں پہنچے کہ ان کے پاس ملازمین کو ادائیگی کیلئے تنخواہیں تک نہیں ہیں‘ یہ سقم تلاش کرنے کے بعد ضروری ہے کہ دیگر اداروں کو اس طرح کی صورتحال سے بچایا جائے ‘پی آئی اے کے کیس میں وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت کے صدر عاطف اکرام شیخ کا یہ کہنا قابل توجہ ہے کہ اگر اس وقت فضائی کمپنی کی نجکاری نہ کی گئی تو اس سال مزید100 ارب روپے کا خسارہ ہوگا ‘کیا ہی بہتر ہو کہ ماہرین پر مشتمل ایک باڈی تشکیل دے کر اداروں کی کارکردگی‘ آمدنی ‘اخراجات اور دیگر امور سے متعلق جائزہ رپورٹ تیار کی جائے کہ جس کی روشنی میں مزید آگے بڑھا جا سکے اور قومی اداروں کو بڑے خسارے سے بچایا جاسکے‘ ایک ایسے وقت میں جب ملک سخت اقتصادی مشکلات کا شکار ہے اور پوری معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے کھربوں روپے کے قرضے اٹھانا معمول بن چکا ہے‘ اصلاح احوال کیلئے دیگر اقدامات کیساتھ پبلک سیکٹر کے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مزید نقصان سے بچا جاسکے اس کے ساتھ قومی اداروں کو اس سٹیج پر پہنچنے سے بچایا جائے کہ جہاں ان کی خریداری کیلئے کوئی بولی تک دینے کو تیار نہ ہو۔