موت کا پھندا

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کیلئے قرضے موت کا پھندا بن چکے ہیں‘ آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں گزشتہ روز کلائمیٹ فنانس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہمیں قرضوں نہیں بلکہ مالی امداد کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا صورتحال سے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ماضی قریب میں دو تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا‘ ان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ترقیافتہ ممالک کو آگے آنا ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق تکنیکی نوعیت کی بحث اور ان تبدیلیوں کے دنیا سمیت پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات اپنی جگہ عالمی سطح پر ایک مؤثر حکمت عملی کے متقاضی ہیں جبکہ دوسری جانب جہاں تک قرضوں کے اکانومی پر مرتب ہونے والے اثرات کا سوال ہے تو وزیراعظم شہباز شریف ان کو موت کا پھندا قرار دے رہے ہیں۔ اس وقت ذمہ دار اداروں کے ترتیب دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو 2030ء تک 6 ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات اپنی جگہ پاکستان میں اکانومی ایک طویل عرصے سے شدید دشواریوں کا شکار ہے‘ ملک کی اکانومی کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے۔ اندرونی اور گردشی قرضے الگ سے ہیں‘ یہاں تک کہ بعض صوبے بھی قرضے لے چکے ہیں‘ ہر قرضے کے بدلے عائد ہونے والی شرائط کا لوڈ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے‘ اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ قومی قیادت اکانومی کو مشکلات کے گرداب سے نکالنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دے ساتھ ہی عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات تجویز کئے جائیں‘ اس حوالے سے پیش نظر رکھنا ہو گا کہ درپیش منظر نامے میں ملک کا عام شہری سب سے زیادہ متاثر ہے۔ اس شہری کی کمر مہنگائی نے توڑ کر رکھ دی ہے‘ مصنوعی گرانی اور صحت کیلئے مضر ملاوٹ اس سے الگ ہے‘ ملاوٹ میں کھانے پینے کی اشیاء تو ایک طرف ادویات کا معیار بھی سوالیہ نشان ہے جس میں ذمہ دار محکمے کبھی کبھار غیر معیاری اور دو نمبر ادویات کے ذخیرے برآمد کرتے ہیں جن سے صورتحال کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ بے روزگاری نے اس کمر توڑ مہنگائی میں مجموعی صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیا ہے‘ اب جبکہ وزیراعظم خود قرضوں کے انبار کو موت کا پھندا قرار دے رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کیلئے اقدامات کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا جائے اور اس کیلئے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے۔