ترجیحات کیا ہیں؟

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے قرض کے اجراء کیلئے دیئے گئے تمام اہداف پر سختی سے عملدرآمد کا کہا ہے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت  مجموعی طور پر مثبت رہی آئی ایم ایف کی جانب سے تمام اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا کہا گیا ہے جبکہ عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے معیشت میں ریاستی مداخلت کم سے کم کرنے پر بھی اصرار کیا جا رہا ہے‘ آئی ایم ایف صوبوں کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ذمہ داریاں بڑھانے کا بھی کہہ رہا ہے‘ دریں اثناء وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کرنے کا عزم دہرایا گیاہے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ پر نظرثانی کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی‘ وزیر خزانہ ملک میں ائرپورٹس بھی نجی شعبے کو دینے کا عندیہ دے رہے ہیں‘ملک کی کمزور اقتصادی حالت اور اس کے نتیجے میں قرض اٹھانے کا سلسلہ عرصہ سے جاری ہے‘ہر قرضے کے اجراء کے ساتھ شرائط اور مطالبات کی طویل فہرست جاری ہو جاتی ہے اس فہرست پر عملدرآمد مجبوری ہی ہوتی ہے تاہم اس عمل درآمد کا سارا بوجھ غریب عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے حکومت کی جانب سے ٹیکس بظاہر کسی بھی شعبے پر لگے اس کا بڑا حجم عام شہری کو براہ راست یا پھر بالواسطہ ادا کرنا ہوتا ہے‘دوسری جانب ملک کی سیاست ایک طویل عرصے سے تناؤ اور کشمکش کا شکار ہے‘سیاسی قیادت کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات الفاظ کی گولہ باری کی صورت میں جاری رہتے ہیں قرضوں کے انبار سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نکلنے کیلئے مزید قرضہ اٹھانا ظاہر ہے حکمت عملی نہیں ہے‘ضرورت تو اس انداز سے منصوبہ بندی کی ہے کہ اکانومی کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا جائے تاکہ قرضوں پر سے انحصار ہی ختم ہو یہ کوئی عام نوعیت کا ٹاسک نہیں اس کیلئے ایک کنکریٹ حکمت عملی کی ضرورت ہے‘یہ محفوظ اور تسلسل کی حامل پلاننگ ہے جس کیلئے وسیع مشاورت کی ضرورت ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ وقت نہیں آیاکہ ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور عوام کی مشکلات کے حل کو ترجیحات میں شامل کیا جائے اور اس ضمن میں ضرورت ایک موثر پلاننگ کیلئے قومی قیادت مل کر بیٹھے۔