بہت دیر کے بعد

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ اصلاح نہ کرنے والے حکام اب سزا کیلئے تیار ہو جائیں‘ وزیر اعلیٰ نے عوامی شکایات کے ازالے کی صورتحال پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کیساتھ متعلقہ حکام کی سخت سرزنش بھی کی ہے‘ دریں اثناء صوبے کی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام منصوبوں پر عملدرآمد نہ ہونے کا بھی سخت نوٹس لیا ہے‘ اس ضمن میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ نیا مالی سال شروع ہونے کے بعد سے اب تک سالانہ ترقیاتی پروگرام کے منصوبوں کیلئے بجٹ منظوری کے باوجود کام شروع نہیں کیا جا سکا ہے حکومت کی جانب سے اس حوالے سے ذمہ دار افسروں کیخلاف کاروائی کا عندیہ بھی دے دیا گیا ہے‘ اس حقیقت سے چشم پوشی کی گنجائش نہیں کہ کسی بھی ریاست میں حکومت کی جانب سے لائی جانے والی اصلاحات صرف اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں جب ان کے نتیجے میں عوام کو ریلیف کا احساس ہو یہ سب اس صورت میں ممکن ہے جب حکومتی اصلاحات کو عملی صورت دینے کی ذمہ دار سرکاری مشینری پوری فعالیت سے کام کرے سرکاری ادارے قومی فنڈز کا بروقت اور شفاف استعمال یقینی بنائیں اس مقصد کیلئے ضرورت چیک اینڈ بیلنس کے ایک موثر نظام کی ہوتی ہے‘ چیک اینڈ بیلنس اس صورت عملی نتائج دے سکتا ہے جب یہ حکومتی سطح پر ہو‘ہمارے ہاں اکثر اصلاح احوال اس حد تک محدود رہتی ہے کہ عوام کو فون نمبر یا آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کا کہہ کر شکایات درج کرانے کا کہہ دیا جاتا ہے اضلاع کی سطح پر انتظامیہ ایک نرخنامہ روزانہ جاری کرکے اس کے آخر میں ٹیلی فون نمبر لکھ دینے پر اکتفا کرتی ہے‘لوگوں سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر مارکیٹ میں مہنگائی ہو اور نرخنامے کی پابندی نہ ہو رہی ہو تو اس نمبرپر اطلاع دیں‘اسی طرح دیگر تمام معاملات میں لوگوں کو ہی شکایات کے اندراج کا کہہ دیا جاتا ہے‘ اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ عام شہری کسی کی شکایت درج کروا کر اپنے لئے دشمنی مول نہیں لے سکتا‘صرف عوام کی جانب سے ہی تمام معاملات میں نشاندہی پر اکتفا کو درست حکمت عملی نہیں گردانا جا سکتا‘ خیبرپختونخوا میں وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈا پور کی جانب سے وارننگ کا تقاضہ یہ ہے کہ متعلقہ حکام کڑی نگرانی کا انتظام یقینی بنائیں جس میں ذمہ دار افراد کی نشاندہی ہو سکے‘ بصورت دیگر جس وژن کے ساتھ بہتری کی جانب بڑھنے کا عزم ظاہر کیا جارہا ہے اس میں اہداف کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔