سیاسی استحکام کیلئے مکالمے کی ضرورت



وطن عزیز کی سیاست میں گزشتہ دنوں کے افسوسناک واقعات پر سیاسی بیانات میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے سیاسی منظرنامے میں تناﺅ اور کشمکش کی صورتحال نے ہر محب وطن کوپریشان کر رکھا ہے جبکہ دوسری جانب ملک کو درپیش چیلنج بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال میں رکھا جائے اور سیاسی معاملات سیاسی انداز میں حل کرنے کی جانب بڑھا جائے ملک کے سیاسی ماحول کی کشمکش کو جمہوری عمل کا حصہ قرار دیا جاتا ہے تاہم اس کو ایک حد میں رکھنا ہی قانون سازی اور دیگر اہم قومی امور کو باہمی مشاورت کیساتھ یکسو کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے‘ ملک کی اکانومی کھربوں روپے کی مقروض ہے توانائی بحران کے ہاتھوں عوام کی پریشانی کیساتھ صنعت و زراعت کے شعبے بھی متاثر ہیں پیداواری لاگت عالمی منڈی میں مسابقت کی راہ میں رکاوٹ ہے ملک میں عوام گرانی‘ بے روزگاری‘ ملاوٹ اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے اقتصادی اشاریوں میں جتنی بہتری آئے زرمبادلہ کے ذخائر جس قدر بڑھ جائیں حصص کی منڈی میں جو بھی بہتری ریکارڈ ہو عوام کو برسرزمین جب تک عملی ریلیف کا احساس نہیں ہوتا اس وقت تک اس کیلئے سب کچھ بے معنی ہے‘ یہ ساری برسرزمین صورتحال متقاضی ہے کہ سیاسی استحکام کیلئے مکالمے کی ضرورت کا احساس کیا جائے ساتھ ہی ضروری یہ بھی ہے کہ اقتصادی شعبے میں استحکام کیلئے موثر اور پائیدار حکمت عملی تشکیل دی جائے اس سب کیلئے وزیراعظم شہبازشریف گزشتہ روز ایک بار پھر میثاق معیشت کی تجویز کا اعادہ کرتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ضرورت اس ضمن میں ایسے ٹھوس اقدامات کی بھی ہے کہ اس میثاق کیلئے آگے بڑھا جائے یہ سب اسی صورت ممکن ہوگا جب سینئر قومی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے گی جو اس وقت بہت ضروری ہے۔
برسرزمین عملی نتائج کا انتظار؟
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت میں ٹریفک کا مسئلہ روز بروز شدت اختیار کرتا چلا جارہا ہے شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا بے ترتیب اژدھام اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام تر اعلانات‘ اقدامات‘ اجلاس‘ فیصلے اور خوش کن حکمت عملی کی باتیں اصلاح احوال کیلئے کوئی نتائج نہیں دے پائیں‘ ٹریفک میں اصلاح احوال کیلئے ساری پلاننگ میں مدنظر رکھنا ہوگا کہ یہ کسی ایک محکمے کا کام نہیں اس کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی بصورت دیگر مسئلہ جوں کا توں نہیں رہے گا بلکہ شدت اختیار کرتا چلا جائیگا۔