توجہ کا متقاضی اہم شعبہ


وطن عزیز کی سیاست کے میدان میں گرما گرمی کسی طور کم ہونے کا نام نہیں لے رہی‘ دوسری جانب عوام کی مشکلات میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ دیگر مشکلات کے ساتھ ہیلتھ سیکٹر میں سروسز کے حصول کیلئے درپیش دشواریاں بھی نمایاں ہیں جبکہ اس شعبے میں اصلاح احوال کیلئے وفاقی اور صوبوں کی حکومتوں کے درجنوں اعلانات موجود ہیں‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق مارکیٹ کی صورتحال کے تناظر میں مرتب اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ ملک میں جان بچانے والی دواﺅں سمیت اہم ادویات کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے‘ ادویہ ساز کمپنیوں کی آمدن 26 فیصد تک بڑھ چکی ہے جبکہ عام آدمی کیلئے اپنے گھریلو بجٹ میں سے ادویات کی خریداری کیلئے رقم نکالنا عملی طور ممکن دکھائی نہیں دیتا کبھی کبھار بیماری کی صورت میں علاج کیلئے جانا اور ادویات خریدنا الگ ہے تاہم ان مریضوں کی مشکلات کا احساس بھی ناگزیر ہے کہ جو باقاعدگی سے دوائیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور جو ہر ماہ گھریلو سودا سلف خریدتے وقت ایک بڑی رقم دوائیں خریدنے پر صرف کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں انتہائی مہنگی ادویات کا معیار اور سٹوریج کے انتظامات علیحدہ سے سوالیہ نشان ہیں‘ ذمہ دار حکام کے کبھی کبھار کے چھاپوں میں غیر معیاری اور جعلی ادویات کے ذخیرے برآمد ہونا معمول ہے۔ دوسری جانب سرکاری علاج گاہوں کی حالت بھی ایک برسر زمین تلخ حقیقت ہے جس سے چشم پوشی ممکن نہیں‘ خیبر پختونخوا میں ہیلتھ سیکٹر حکومتی ترجیحات میں سرفہرست ہے اس شعبے میں اصلاح احوال کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے بھی گئے ہیں۔ صحت کارڈ کو ایک میگا پراجیکٹ کا درجہ حاصل ہے جس کے تحت ماضی قریب کی طرح لوگوں کو سرکاری علاج گاہوں میں مہیا سروسز پہلے سے زیادہ ہو کر مل رہی ہیں‘ اس سب کے ساتھ صرف نظر اس بات سے بھی ممکن نہیں کہ عوام کی بڑی تعداد چند ایک علاج گاہوں کو چھوڑ کر سرکاری ہسپتالوں میں سروسز سے مطمئن نہیں ہو پاتی‘ لوگ پورا پورا دن ہسپتالوں میں گزارنے کے بعد شام بھاری ادائیگی کر کے نجی کلینکس سے علاج کرانے پر مجبور ہوتے ہیں‘ ان کلینکس اور ہسپتالوں میں چارجز پر قاعدے قانون سے آزاد ہیں اور جس کی جو مرضی چاہے فیس وصول کرتا ہے۔ اس سارے عمل میں لمبے چوڑے ٹیسٹ کرانے کی فہرست بھی جاری ہوتی ہے جس کیلئے چارجز کا کوئی تعین نہیں‘ اس پورے منظر نامے میں علاج گاہوں کی جانب سے ہر ماہ جاری ہونے والی تفصیل پر ہی اطمینان کر لیا جاتا ہے کہ جس میں درج ہوتا ہے کہ اس مہینے اتنے مریض آئے اور ان کو سروسز فراہم کی گئیں اب یہ خدمات کس معیار کی تھیں اور لوگ ان سے کس قدر مطمئن تھے اس کیلئے تفصیلات میں کوئی خانہ موجود نہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ مرکز اور صوبوں کے ذمہ دار دفاتر انسانی صحت اور زندگی سے جڑے اس اہم سیکٹر میں اصلاح احوال کی جانب عملی پیش رفت یقینی بنائیں اس میں خود اداروں کی مشکلات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔