وطن عزیز کے میدان سیاست میں جاری تناﺅ اصلاح احوال اور معاملات مل بیٹھ کر یکسو کرنے کا متقاضی چلا آ رہا ہے‘ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ سیاسی تناﺅ اور کشمکش کے نتیجے میں دیگر نقصانات کے ساتھ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے درکار مو¿ثر حکمت عملی پر کام نہیں ہو پا رہا۔ دوسری جانب ملک کو اکانومی سمیت مختلف شعبوں میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے‘ اقتصادی سیکٹر میں اصلاح احوال کے لئے دیگر عوامل کے ساتھ سیاسی استحکام بھی ضروری ہے‘ کسی بھی ریاست میں سرمایہ کار اسی وقت پورے حوصلے کے ساتھ اپنا سرمایہ لگاتا ہے جب اسے مستحکم سیاسی ماحول ملے اور سرمایہ کاری کے لئے تمام سہولیات میسر ہوں۔ وطن عزیز میں سیاسی درجہ حرارت کو اس حوالے سے بھی حد اعتدال میں لانا ضروری ہے کہ اس قت درپیش اقتصادی صورتحال میں دیگر امور مملکت تو متاثر ہیں ہی‘ ساتھ میں ملک کا عام شہری شدید مشکلات کا سامنا کر رہا ہے‘ اقتصادی منظر نامے میں اذیت کا شکار ہونے والا یہ شہری اس پوری معاشی صورتحال کا ذمہ دار بھی نہیں اسے ہر قرضے کے ساتھ عائد ہونے والی شرائط پر عمل درآمد کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے یہ بوجھ گرانی کی صورت اٹھائے اب اس کی کمر ٹوٹ رہی ہے‘ اسے بے روزگاری سمیت دیگر متعدد مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اس شہری کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں‘ اس سب کا تقاضا ہے کہ بعد از خرابی بسیار اصلاح احوال کی جانب بڑھنے کی روش کو ترک کر دیا جائے‘ درپیش منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم معاملات باہمی مشاورت سے یکسو کئے جائیں تاکہ ملک کی اقتصادیات کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا جا سکے اور قرضوں پر سے انحصار ختم ہو‘ساتھ ہی قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عمل درآمد کی پابندیوں سے بھی چھٹکارہ مل سکے‘ اس سب کے لئے ترجیحات کا تعین ناگزیر ہے تاکہ مل بیٹھ کر ان کے لئے محفوظ اور مو¿ثر حکمت عملی ترتیب دی جا سکے‘ یہ حکمت عملی اس طرز پر ترتیب دینا ہو گی کہ مستقبل میں طویل المدت پلاننگ حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونے پائے‘ اس میں ضرورت برسر زمین حالات کی روشنی میں ضروریات کے احساس کی ہے تاکہ ہونے والی پلاننگ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو‘ مدنظر رکھنا ہو گا کہ ملک کو درپیش مشکلات کے حل کی جانب اگر اس وقت نہ بڑھا گیا تو آنے والے دنوں میں مشکلات کا گراف مزید بڑھ جائے گا۔