وطن عزیز کی سیاست کے میدان میں ہلچل کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے میدان سیاست میں اتار چڑھاؤ کے دوران ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ وطن عزیز میں بھاری یوٹیلٹی بلوں کے باعث پریشان حال بجلی صارفین کو200ارب روپے اضافی بھی ادا کرنا پڑے ہیں‘ یہ رقم انہیں اس بات پر ادا کرنا پڑی کہ ان کے ملک میں بعض لوگ سولر پینل خرید رہے ہیں ان کے پینل خریدنے پر سرکاری گرڈ سٹیشنز کی آمدنی کم ہوگئی ہے اور یہ کہ گرڈز کی بجلی اب پہلے سے کم استعمال ہو رہی ہے‘ ایسے میں فیصلہ ہوا کہ گرڈ کے نقصان کو وہ صارفین پورا کرینگے کہ جو قطعاً اس ساری صورتحال کے ذمہ دار نہیں بالکل اسی طرح جیسے کہ بجلی کے صارفین جو اپنا بل ہر ماہ بینکوں کے سامنے لگی قطاروں میں لگ کر اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ادا کرنے ہیں صرف اسلئے اضافی لوڈشیڈنگ برداشت کرتے ہیں کہ ان کے علاقے میں بعض دوسرے لوگ بجلی کا بل ادا نہیں کرتے اسلئے انہیں سزا دینے کیلئے بجلی طویل وقت کیلئے بند کردی جاتی ہے حالانکہ یہ بے قصور صارفین نہ تو بجلی چوری کے ذمہ دار ہیں نہ ہی ریکوری ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے‘ ان صارفین کو موسم خراب ہونے پر گھنٹوں بجلی کی بندش کے باعث پریشانی کا سامنا محض اسلئے رہتاہے کہ ان کے علاقے میں بجلی کی ترسیل کا نظام محفوظ نہیں اور ہوا کے جھونکے یا پھر معمولی بارش میں بجلی کی سپلائی معطل ہو جاتی ہے‘ ان صارفین کیلئے بجلی کی پیداواری لاگت میں ہونے والا معمولی اضافہ بھی بلوں کا حجم بڑھا دیتا ہے ایک ایسے وقت میں جب ملک کی معیشت شدید مشکلات کے بھنور میں ہے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے گردشی قرضے پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہیں غیر ملکی قرضوں کیلئے شرائط کی فہرست کا سارا بوجھ بھی عام صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے اگر بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے تو یہ مرے ہوئے کو مارنے کے مترادف ہے‘ دوسری جانب اصلاح احوال کیلئے اقدامات ضرورت کے مطابق نہیں ہوتے‘اس وقت ناگزیر ہے کہ ملک میں سستی بجلی کی پیداوار مہنگائی کی بنیادوں پر بڑھائی جائے یہ صرف گھریلو صارفین کیلئے ناگزیر نہیں بلکہ اس سے توانائی بحران پر قابو پانے کیساتھ مجموعی پیداواری لاگت بھی کم ہو سکتی ہے‘ آبی ذخائر کی تعمیر سے جو اتفاق رائے کے ساتھ ہو‘ زراعت کے سیکٹر میں بہتری لائی جاسکتی ہے اس کے ساتھ سیلابوں کی روک تھام میں بھی یہ بہتر ہیں اس سب کیلئے ضرور ی ہے کہ کم از کم اہم معاملات پر قومی قیادت وسیع مشاورت یقینی بنائے۔