1300 ارب فائدہ 8 ارب 71 کروڑ کا بوجھ

حکومت کی جانب سے شرح سود میں کمی کا اثر قرضوں کے والیوم پر بھی مرتب ہوا ہے‘ مانیٹری پالیسی کے اعلان سے قرضوں کا حجم 1300 ارب روپے کم ہو گیا ہے‘ دریں اثناء ملکی معیشت کیلئے اس حوصلہ افزا خبر کے ساتھ ملک کے عوام کیلئے بری خبر یہ بھی ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے ایک بار پھر بجلی بلوں میں اضافے کا کیس پیش کر دیا ہے۔ نجی ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق نیپرا میں اس مقصد کیلئے درخواست جمع کرا دی گئی ہے‘ درخواست منظور ہونے کی صورت میں بجلی کے صارفین پر 8 ارب 71 کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا‘ درخواست کے مندرجات سے متعلق خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیپسٹی چارجز کی مد میں 8ارب 6 کروڑ جبکہ آپریشنز اینڈ مینٹیننس کے زمرے میں 1 ارب 25 کروڑ روپے مانگے گئے ہیں۔ شرح سود میں کمی کے نتیجے میں قرضوں کے انبار میں 1300 ارب روپے کم ہونا یا دیگر اقدامات کے نتیجے میں اقتصادی اشاریوں میں بہتری‘ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنا اور تجارتی خسارہ کم ہونا سب قابل اطمینان ضرور ہے تاہم عوام کیلئے یہ سب اس صورت ثمر آور نتائج کا حامل ہوتا ہے کہ جب ریلیف کا احساس ہو‘ بصورت دیگر سارے خوش کن اعلانات اور اچھے اعداد و شمار عام شہری کیلئے بے معنی رہ جاتے ہیں‘ اس وقت جبکہ ملک میں عوام شدید مشکلات میں ہیں ضرورت عوام کو درپیش حالات کے تناظر میں ریلیف دینے کی ہے اس کیلئے تلخ ارضی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی‘ مرکز اور صوبوں کی حکومتوں کو اضلاع و تحصیل لیول تک کی انتظامی مشینری کو فعال بنانا ہو گا اس میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کون سا سقم ہے کہ جو حکومت کی جانب سے عوامی ریلیف کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کے باوجود عوام کیلئے گراس روٹ لیول پر ریلیف پہنچنے کی راہ میں حائل ہے۔
عوامی شکایات کا انتظار کیوں؟
ہیلتھ کیئر کمیشن نے 331 عوامی شکایات میں 75 فیصد کا ازالہ کر دیا‘ 3 ماہ میں 192 ہیلتھ کیئر مراکز سیل کئے گئے کہ جو معیار کے مطابق نہیں تھے اور یہ کہ ان میں غیر مستند عملہ تھا‘ 432 کلینک بھی سیل ہوئے جبکہ عطائیوں کے خلاف مہم جاری رکھنے کا عندیہ بھی دیا گیا۔ یہ سب قابل اطمینان ہے جس پر متعلقہ دفاتر کی کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے‘ ہیلتھ کیئر کمیشن ہو یا پھر کوئی بھی دوسرا ادارہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کا باقاعدہ انٹرنل نظام اتنا محفوظ ہونا چاہئے کہ عوام کو شکایت کی ضرورت ہی پیش نہ آئے‘ مدنظر رکھنا ہو گا کہ عام شہریوں کی بڑی تعداد شکایات کے اندراج سے گریز کرتی ہے اور شکایات درج نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب اچھا ہے اس کیلئے ذمہ دار حکام کو خود کاروائی کرنا ہو گی۔