وطن عزیز کے مجموعی سیاسی منظرنامے اور خیبرپختونخوا میں سیاسی گرما گرمی کے بڑھتے ہوئے گراف سے متعلق بحث میں پڑے بغیر ضرورت برسرزمین تلخ حقائق کے احساس و ادراک کی بھی ہے‘ سیاست کے میدان میں پشاور کا درجہ حرارت زیادہ ہے ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور الزامات کیساتھ ہر کوئی آنے والے دنوں میں امکانات سے متعلق بھی تجزیئے کر رہا ہے یہ سب کچھ اپنی جگہ اصلاح احوال کیلئے اقدامات کا متقاضی ضرور ہے تاہم اس کے ساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ برسرزمین تلخ حقائق کی روشنی میں صوبے کی تعمیر و ترقی اور عوام کو ریلیف کی فراہمی کیلئے اقدامات تجویز کئے جائیں اور ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے‘ بندرگاہ سے دور مخصوص جغرافئے کا حامل صوبہ خیبرپختونخوا تعمیروترقی کی دوڑ میں مطلوبہ رفتار سے آگے نہیں بڑھا‘ اس صوبے کی بندرگاہ سے دوری اس حوالے سے اہم فیکٹر ہے صوبے کے مخصوص حالات بھی دیگر عوامل کے ساتھ شامل حال ہیں یہ صوبہ طویل عرصے سے1979ء میں افغانستان پر روسی یلغار کے بعد آنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کا میزبان بھی ہے‘ اس صوبے کو امن وامان کے حوالے سے سنگین چیلنجوں کا سامنا بھی رہتا ہے امن وامان کی صورتحال میں بھاری قیمتی جانی نقصان کے ساتھ املاک کو بھی نقصان پہنچادہشتگردی کیخلاف جنگ میں بھی خیبرپختونخوا کو فرنٹ لائن صوبے کا درجہ حاصل رہا جبکہ اس ساری صورتحال میں یہ عندیہ بھی آتا رہا کہ خیبرپختونخوا وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کیساتھ تجارت میں گیٹ وے بھی ہوگا‘ آج اس صوبے کی معیشت قرضوں کابوجھ سنبھالے ہوئے ہے جبکہ دوسری جانب اسی صوبے کے پن بجلی اور دیگر سیکٹرز میں اربوں روپے وفاق کے ذمے واجب الادا چلے آرہے ہیں اس صوبے کیلئے پن بجلی منافع کی شرح بڑھانے کی باتیں یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنیوالی حکومتوں میں ہوتی تو رہتی ہیں تاہم ثمر آور نتائج کا ہنوز انتظار ہی ہے اس ضمن میں ماضی قریب میں آفتاب غلام نبی قاضی جوکہ سٹیٹ بینک کے گورنر بھی رہ چکے ہیں کی سربراہی میں بننے والی باڈی فارمولہ پیش کرچکی ہے جو اے جی این قاضی فارمولے کے نام سے فائلوں میں موجود ہے صوبے کے دیگر حالات کیساتھ عام آدمی کو درپیش مسائل بھی حل طلب ہیں ان میں مہنگائی کے حوالے سے مارکیٹ کنٹرول کا نظام موثر بنانا تعلیم‘ علاج اور میونسپل سروسز کی فراہمی‘ روزگار کے مواقع اور امن وامان کے سیکٹرز زیادہ توجہ کے متقاضی ہیں اس کیساتھ گورننس سے جڑے معاملات سنجیدہ حکمت عملی کا تقاضہ بھی کرتے ہیں۔