سیاست کیساتھ توجہ کے مقتاضی امور



اس بات سے صرف نظر کرکے کہ اس وقت ملک میں سیاست کا میدان کس قدر تپ رہا ہے‘ سیاسی تناﺅ اور کشمکش کا نتیجہ کس صورت سامنے آرہا ہے‘ صرف نظر اس بات سے بھی کہ اس سارے منظر نامے میں کون درست ہے اور کون غلط ‘وقت کا تقاضہ ہے کہ ان چیلنجوں پر بھی توجہ مرکوز کی جائے کہ جو اس وقت وطن عزیز کو درپیش ہیں‘ دیکھا یہ بھی جائے کہ ملک میں درپیش ان چیلنجوں کے نتیجے میں عوام کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہے ‘ اس کڑوے سچ سے بھی صرف نظر ممکن نہیں کہ ملک اقتصادی شعبے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کررہا ہے‘ اکانومی کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہوئی ہے ‘قرضوں کے حجم میں وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے‘ ہر نئے قرضے کے ساتھ قرض دینے والوں کی شرائط پر عمل درآمد بھی ضروری ہوتا ہے‘ اس عملدرآمد کے مرحلے میں سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے‘ یہ بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ملک میں عام شہری کی کمر ٹوٹ چکی ہے سرمایہ دار کے سرمائے کا حجم بڑھتا چلاجارہا ہے جبکہ ہر ٹیکس پر ڈیوٹی حتیٰ کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا لوڈ بھی عام صارف پر ڈال دیا جاتا ہے‘ انتہائی پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنے والا یہ عام شہری بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے اسے پینے کے لئے صاف پانی بھی اکثر علاقوں میں نہیں مل رہا‘ اس کو سانس لینے کے لئے صاف ماحول بھی اکثر علاقوں میں میسر نہیں ‘بنیادی شہری سہولیات کا فقدان عام ہے‘ میونسپل سروسز کا معیار کسی طور قابل اطمینان نہیں ہوتا‘ سروسز کی فراہمی کے لئے وسائل بمقابلہ مسائل بہت کم ہیں‘ مریض کو علاج کی سہولت معیار کے مطابق فراہم نہیں‘ وہ اثاثے فروخت کرکے نجی اداروں میں علاج کے لئے مجبور ہے‘ عام شہری اپنے بچوں کو 2 کمروں کے پرائیویٹ سکول میں داخل کرتا ہے اور پیٹ کاٹ کر فیس ادا کرتا ہے‘ اس شہری کے لئے سرکاری سکولوں میں تعلیم کا معیار سوالیہ نشان ہے‘ اس شہری کو ریونیو دفاتر میں شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے‘ اسے بجلی اور گیس کے کنکشن سے لے کر بل کی ادائیگی اور یوٹیلٹی سروسز کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے‘ سیاسی درجہ حرارت کو حد اعتدال میں رکھنے کے ساتھ ضرورت ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے اور عوام کی مشکلات کے ازالے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں‘ اس سب کے لئے اہم رہنماﺅں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔