ملک کے سیاسی منظر نامے میں گزشتہ دنوں سخت تناﺅ‘ کشمکش اور گرما گرمی دیکھی گئی اس دوران رونما ہونے والے افسوسناک واقعات اہل وطن کیلئے پریشانی اور بے چینی کا باعث بنے‘ اب ایک طویل وقت تک اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں کی بحث چلے گی‘ سیاسی بیانات کی حدت اور شدت بڑھے گی ہر جانب سے اپنا مو¿قف پیش ہو گا اور ساتھ ہی ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ بھی ہو گی۔ وطن عزیز میں سیاسی گرما گرمی کا سلسلہ ایک عرصے سے چل رہا ہے‘ ایوان کے اندر اور باہر حکومت و اپوزیشن کے درمیان اختلافات حداعتدال سے بڑھ چکے ہیں‘ اس طویل تناﺅ اور کشمکش کے دوران حکومتیں بھی تبدیل ہوئیں اور سیاسی قیادت کے بینچ بھی بدلے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن اور ٹریژری بینچوں کے درمیان اختلاف معمول کا حصہ ہے تاہم اس کو ایک حد میں رکھنا اور کم از کم اہم قومی امور پر مل بیٹھ کر بات کرنا بھی جمہوری عمل میں شامل رہا ہے‘ ملک میں جہاں سیاسی اختلافات کی شدت رہی ہے وہیں آل پارٹیز اور گول میز کانفرنسوں کا انعقادبھی ہوتا رہا ہے کہ جن میں مختلف امور پر بات چیت بھی ہوئی‘ اس وقت ملک کو مختلف شعبوں میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے اکانومی کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہوئی ہے جبکہ عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کیلئے اخراجات پورا کرنا دشوار ہو چکا ہے‘ عام آدمی کو بنیادی سہولیات تک معیار کے ساتھ اور ضرورت کے مطابق میسر نہیں‘ پڑھے لکھے نوجوان بےروزگاری سے تنگ آ کر اثاثے فروخت کرنے اور ان کے عوض ویزے حاصل کر کے بیرونی ممالک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں‘ امن و امان کی صورتحال اپنی جگہ تشویشناک ہے‘ عوام کو سروسز کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے‘ سرکاری مشینری کے پورے آپریشن میں مرکز اور صوبوں کی سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے‘ اس مشینری کے پورے سیٹ اپ کو جدید سہولیات سے لیس کرنا بھی ضروری ہے‘ معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کیلئے مختلف دورانیوں پر مشتمل حکمت عملی بھی ناگزیر ہے جبکہ عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت سے بھی صرف نظر کسی طور ممکن نہیں۔ مرکز اور صوبوں کی سطح پر برسرزمین تلخ حقائق کی روشنی میں اصلاح احوال کیلئے ٹھوس اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت سے چشم پوشی کسی طور ممکن نہیں اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو حد اعتدال میں رکھنے کے ساتھ اہم امور باہمی مشاورت سے یکسو کئے جائیں جو یقینا سب کے لئے ترجیحات کا حصہ ہیں۔