عین ایسے وقت میں جب ملک کا سیاسی درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے‘ عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے گیس کے نرخوں میں اضافے کیلئے 15 فروری کی ڈیڈ لائن دے دی ہے‘ گیس بلوں میں اضافے کا حجم 53.47 فیصد ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے دیئے گئے روڈ میپ کے مطابق حکومت کو ششماہی بنیادوں پر گیس ٹیرف بڑھانا ہو گا‘ اس سے قبل گیس بلوں کا والیوم تین مرتبہ بڑھایا جا چکا ہے‘ اس حوالے سے خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سوئی ناردرن نے 3.66 جبکہ سدرن نے 53.47 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے تاہم اوگرا کی جانب سے تادم تحریر فیصلہ حکومت کو ارسال نہیں ہوا۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے دی گئی مطالبات کی فہرست میں محصولات کے حوالے سے مہیا میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت اب تک 3 جائزہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وطن عزیز کی معیشت کو درپیش مشکلات کا حل ایک عرصہ سے قرضوں کا حصول قرار دیا جا رہا ہے‘ ہر نئی برسر اقتدار آنے والی حکومت گزشتہ دور کو ذمہ دار قرار دیتی ضرور ہے تاہم قرضوں کا حجم کم اور زیادہ کے فرق سے بڑھتا ضرور رہتا ہے‘ قرضوں کے حصول کیلئے طے ہونے والی شرائط کا سارا لوڈ عوام پر گرانا معمول ہے‘ اب بھی گیس کے نرخوں میں اضافے کیلئے کاروائی شروع ہو چکی ہے جس کا لوڈ ہر صورت عوام پر ہی پڑے گا گھریلو بل کا حجم بڑھے تو ادائیگی اسی عام غریب صارف نے کرنی ہے جبکہ گیس مہنگی ہونے پر جب ملک میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہو تو یہ ادائیگی بھی عام صارف نے ہی کرنا ہوتی ہے۔ دوسری جانب متعلقہ دفاتر اپنے ریونیو اہداف میں ناکام رہے ہیں ملک کا عام شہری گو کہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں تاہم سارا بوجھ اسی عام شہری پر ڈالنے کے ساتھ ضروری ہے کہ اس کے ریلیف کیلئے مرکز اور صوبے احساس کریں۔
ایک اور جی ٹی ایس؟
پشاور میں سرکاری بس سروس کی 7 بسیں صرف 24 گھنٹے کے دورانیے میں خراب ہونا قابل تشویش ہے۔ خیبر پختونخوا ماضی قریب میں ایک بڑی بس سروس جی ٹی ایس کے زوال کو دیکھ چکا ہے جس میں بڑے مالی نقصان کے ساتھ ملازمین کی بڑی تعداد بے روزگار ہوئی‘ اب بھی اس نئی بس سروس کے مالیاتی اور انتظامی امور کو بروقت نہ دیکھا گیا تو اربوں روپے کا منصوبہ منافع دینے کی بجائے سفید ہاتھی بن جائے گا۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اب تک کے تمام مالی و انتظامی امور کا جائزہ لے کر مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔