کڑی نگرانی کی ضرورت


خیبر پختونخوا میں درپیش صورتحال اور حکومتی اقدامات کے عملی نتائج کے درمیان فاصلے متقاضی ہیں کہ ترجیحات کی فہرست پر نظرثانی کرتے ہوئے مانیٹرنگ کا فول پروف نظام بھی وضع کیا جائے‘ صوبے میں امن و امان کی صورتحال اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ متقاضی ہے کہ سکیورٹی انتظامات کو ری وزٹ کرنے کے ساتھ عوامی نمائندوں کی شمولیت بھی ان میں یقینی بنائی جائے کہ جن کی رسائی گراس روٹ لیول پر ہو گی‘ اس سے سکیورٹی انتظامات میں پولیس اور عوام کے درمیان جگہ جگہ تکرار کی شرح بھی کم ہو گی اور خود عوامی نمائندے پل کا کردار ادا کریں گے‘ صوبے میں عوام کو مصنوعی گرانی کے ہاتھوں جس طرح پریشانی کا سامنا ہے اس میں ضروری ہو گیا ہے کہ مارکیٹ کنٹرول کے لئے اقدامات یقینی بنائے جائیں صرف کبھی کبھار کے چھاپے مسئلے کا حل نہیں‘ اس ضمن میں ضروری ہے کہ خانہ پری پر اکتفا کی بجائے عملی طور پر اس نوعیت کا انتظام کیا جائے کہ چیک اینڈ بیلنس کے عمل کی رسائی گلی محلے کی سطح پر بھی ہو‘ صوبے میں عوام کو علاج کے لئے سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے بڑے بڑے اقدامات اٹھائے ضرور گئے ہیں‘ صحت کارڈ سمیت بڑے بڑے منصوبے شروع بھی ہوئے عملی نتائج کے حوالے سے خود صوبے کی رہنما ٹاسک فورس نے جو رپورٹ دی ہے وہ سرکاری اعلانات اور ثمر آور نتائج کے درمیان فاصلوں کی نشاندہی کرتی ہے‘ ضم اضلاع کے حوالے سے رپورٹ کی روشنی میں صوبے کے دیگر علاقوں میں صورتحال کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے‘ بنیادی شہری سہولیات کے ذمہ دار اداروں کی منتخب قیادت احتجاج کر رہی ہے‘ ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کو مستحکم بنانے کے لئے فنڈز کا اجراءیقینی بنایا جائے‘ ضرورت سروسز کے ذمہ دار دیگر تمام اداروں میں بھی چیک اینڈ بیلنس کے محفوظ نظام کی ہے کہ جس میں حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی ہدایات پر عمل درآمد کے تمام مراحل کو مانیٹر کیا جائے۔ دیکھنا یہ بھی ضروری ہے کہ خود سروسز فراہم کرنے والے اداروں کی مشکلات کیا ہیں تاکہ ان کو بھی دور کیا جائے یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب مانیٹرنگ کا محفوظ نظام کام کرے اور اس کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر پیش بھی ہو۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اس مقصد کے لئے کنٹرول رومز اضلاع کی سطح پر قائم ہوں اور پوری رپورٹ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کو دی جائے جس میں عوامی نمائندوں کی رائے بھی شامل ہو جو سارے انتظامات سے متعلق اپنا اطمینان یا عدم اطمینان ظاہر کریں۔