بلدیاتی ادارے اور عوامی مسائل

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق خیبرپختونخوا کے صدر مقام میں بدھ کے روز بلدیاتی اداروں کے منتخب ارکان نے سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کرایا‘ اس دوران پولیس اور منتخب ارکان کے درمیان تصادم بھی ہوا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے‘ احتجاج کیلئے اکٹھے ہونے والے مظاہرین وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کر رہے تھے اس دوران پولیس نے آنسو گیس استعمال کرنے کے ساتھ لاٹھی چارج بھی کیا‘ صوبے کی سب سے بڑی سرکاری علاج گاہ کے قریب آنسو گیس کی شیلنگ ہمیشہ تکلیف دہ ہی رہتی ہے‘ صوبائی دارالحکومت کی مرکزی شارع پر ہونیوالے تصادم کے نتیجے میں پورے شہر میں ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوا ٹریفک جام ہونے پر ایمبولینس گاڑیاں بھی پھنسی رہیں جن میں مریضوں کو جلد ہسپتال پہنچانے کی ضرورت تھی۔مرکز میں کس کی حکومت ہے اور صوبوں میں کون کون حکمران ہے اس بات کو چھوڑتے ہوئے یہ حقیقت کسی طور نہیں جھٹلائی جاسکتی کہ لوکل گورنمنٹ کا موثر سیٹ اپ کسی بھی ریاست میں عوام کو درپیش بنیادی مسائل کے حل اور تعمیر و ترقی کیلئے انتہائی ضروری ہوتا ہے وطن عزیز میں بلدیاتی نظام مسلسل تجربات کی زد میں رہا ہے فیلڈ مارشل ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے اپنے دور حکومت میں علیحدہ علیحدہ نظام متعارف کرائے‘ سول حکومتیں بھی سارے سیٹ اپ میں تبدیلیاں کرتی رہی ہیں‘ اس کے ساتھ منتخب حکومتوں  کے ادوار میں اراکین پارلیمنٹ بھی اپنے طور پر تعمیر و ترقی کے منصوبوں کیلئے کوشاں رہتے ہیں‘جبکہ بلدیاتی نمائندے اپنے لیول پر کام کرتے ہیں ایسے میں فنڈز اختیارات اور ترقیاتی سکیموں سے متعلق مشاورت متقاضی رہتی ہے ایک باہمی رابطے اور سرکاری مشینری کے فعال آپریشن کی‘ اس سب کیلئے ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کی افادیت اور ضرورت کا احساس کیا جائے‘ اس نظام میں اختیارات کی تقسیم اس انداز سے کی جائے کہ منتخب قیادت کے درمیان کسی جگہ یہ تقسیم ٹکراؤ کا ذریعہ نہ بنے‘اختیارات کے تعین میں برسرزمین حقائق کو مدنظر رکھا جائے یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام ہی وہ پل ہے کہ جس سے تعمیر و ترقی کے ثمرات کیساتھ چیک اینڈ بیلنس کا کام گراس روٹ لیول تک پہنچایا جا سکتا ہے خیبرپختونخوا میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی سربراہی میں قائم حکومت نے بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی منتقلی کیلئے موثر اقدامات اٹھائے تاہم ہمارے ہاں حکومتی اقدامات کے عملی نتائج اور پالیسیوں کا تسلسل ہمیشہ سوالیہ نشان ہی رہا ہے جو تقریباً ہر شعبے میں ہے کیا ہی بہتر ہو کہ اس حوالے سے اب بعدازخرابی بسیار سہی کوئی بہتر نظام وضع کیا جائے۔