پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی جمعہ کے روز ہونے والی پریس کانفرنس ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں نمایاں رہی‘ پریس کانفرنس میں دیگر اہم نکات پر پاک آرمی کے واضح مؤقف کے ساتھ وطن عزیز کے سیاسی منظرنامے میں یہ بھی کہا گیا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈرز قابل احترام ہیں اور یہ کہ خوش آئند بات ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل کریں‘ سیاسی جماعتوں کے مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاک فوج کا ہر حکومت کیساتھ سرکاری اور پیشہ وارانہ تعلق ہوتا ہے اور یہ کہ اس تعلق کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں‘ وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ ایک طویل عرصے سے انتہائی گرما گرمی کا شکار ہے‘ سیاسی تناؤ اور کشمکش کا سلسلہ ایک سے زائد مرتبہ انتخابات اور حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود جاری ہے‘سیاسی تناؤ کی کیفیت ایوان کے اندر اور باہر ہر جگہ دکھائی دیتی ہے‘سیاسی بیانات کی حدت اور شدت کیساتھ احتجاج اور پاور شوز کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے‘ سیاسی اختلافات کو جمہور ی عمل کا حصہ قرار دیا جاتا ہے تاہم اس کے ساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ ان اختلافات کو اعتدال کی حد میں رکھا جائے ایک ایسے وقت میں جب ملک کو مختلف شعبوں میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے‘ بہت سارے امور محض مل بیٹھ کر طے کئے جانے کی گنجائش موجود رہتی ہے‘ ملک کو درپیش چیلنجوں میں اہم معیشت کے سیکٹر میں مشکلات ہیں ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد کا سارا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے‘ اس وقت ملک کاعام شہری جو اس ساری صورتحال کا قطعاً ذمہ دار نہیں‘ اس شہری کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہے اس وقت درپیش حالات میں چشم پوشی کی کوئی گنجائش نہیں کہ عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے‘ صرف مارکیٹ میں گرانی نہیں اس عام آدمی کو قرضے دینے والوں کی شرائط پر بننے والے بھاری یوٹیلٹی بل بھی ادا کرنے پڑتے ہیں‘ بچوں کا پیٹ کاٹ کر بل ادا کرنیوالے شہری موسموں کی شدت میں لوڈشیڈنگ کی اذیت بھی برداشت کرتے ہیں‘ ان شہریوں کو بنیادی سہولیات کے حصول میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے قومی قیادت کے اختلافات بے شک جمہوری عمل کا حصہ سہی‘ درپیش چیلنج اور عوام کی مشکلات متقاضی ہیں کہ کم از کم اہم قومی امور اور عوامی مسائل کے حل کیلئے مل بیٹھ کر حکمت عملی وضع کی جائے اور سیاسی معاملات سیاسی انداز میں ہی سنوارے جائیں۔