تعلیم ترجیحات میں سرفہرست ہی ہے؟

خیبر پختونخوا کی 34 سرکاری یونیورسٹیوں کی آمدن و اخراجات میں 15 ارب کا فرق قابل تشویش ہے‘ صوبے کی بعض جامعات میں تو تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کیلئے بھی رقم نہیں‘ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات کی رفتار اس لئے بھی سست رہی کہ بہت ساری جامعات میں وائس چانسلر ہی نہیں‘ وطن عزیز میں یکے بعد دیگرے برسر قتدار آنے والی ہر مرکزی اور صوبائی حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کاشعبہ سرفہرست ہی قرار دیا جاتا ہے‘ خیبر پختونخوا میں بھی ہمیشہ تعلیم کے فروغ کو تقریباً ہر حکومت نے اپنا نعرہ بنایا ہے‘ اس حوالے سے اقدامات بھی کم اور زیادہ کے فرق سے اٹھائے جاتے رہے ہیں‘ اس سب کے باوجود برسر زمین نتائج مایوس کن ہی رہے ہیں‘ پرائمری اور ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیم کے سرکاری اداروں کیلئے تو درجنوں کے حساب سے اعلانات‘ اقدامات اور خوش کن منصوبے معمول کا حصہ بن چکے ہیں‘ برسر زمین نتائج بھی موجود ہیں جو ہر سال تعلیمی بورڈز کی جانب سے اعلان ہونے کے بعد آئندہ اصلاح ا حوال کی باتوں تک رہتے ہیں‘ نجی شعبے کے سکولوں میں داخلوں کی تعداد بھی ایک حقیقت ہے یہاں تک کہ لوگوں کی بڑی تعداد دو کمروں کے نجی سکول میں بچوں کو داخلہ دلوانے کو ترجیح دیتی ہے۔ ماضی قریب کی دو دہائیوں میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے مرکز اور صوبے کی سطح پر متعدد اقدامات اٹھائے گئے‘ خیبر پختونخوا میں سرکاری شعبے کے اندر یونیورسٹیوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ بھی ہوا‘ تیزی سے ہونے والے اس اضافے میں بعض مقامات پر تو یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ یہاں ایک مکمل جامعہ کی ضرورت ہے بھی یا نہیں‘ ماضی میں بعض علاقوں کے اندر ڈگری کالجوں میں پوسٹ گریجویٹ کلاسز سے یونیورسٹی کی ضروریات پوری ہوتی رہی ہیں جبکہ ہائی سکولوں میں انٹر کلاسز کے اجراء سے کالجوں کی کمی کے مسئلے سے نمٹا جاتا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس کی بھرمار میں صوبے کی اہم سرکاری جامعات میں مالی دشواریاں سامنے آنے لگیں‘ ان دشواریوں کا آغاز دستور میں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کو صوبوں کے حوالے کئے جانے سے ہوا‘ صوبے کی سطح پر خیبر پختونخوا میں ہوم ورک پہلے سے نہیں تھابعد میں متعدد مرتبہ کی تجاویز کے باوجود ہائیر ایجوکیشن کی طرز پر صوبے میں ادارے کو فعال نہیں کیا گیا‘ انتظامی بحران اس حد تک بڑھنے لگا کہ وائس چانسلروں کا تقرر ایک بڑا مسئلہ بن کر رہ گیا‘ بعض یونیورسٹیوں کے مالی بحران کا اندازہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے لگایا جا سکتا ہے‘ جواب طلب سوال یہی اٹھتا ہے کہ کیا اس حوالے سے مربوط حکمت عملی کا وقت ابھی نہیں آیا؟