وطن عزیز میں ادویات کی قیمتوں سے متعلق قاعدے قانون میں تبدیلی کے ہوشربا نتائج آنا شروع ہیں‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ملک میں14 اقسام کی ادویات اور انجکشن مزید250 فیصد تک مہنگے ہوگئے ہیں‘ رپورٹ کے مندرجات میں بتایا جاتا ہے کہ الرجی کیلئے لگایا جانے والا ٹیکہ432 روپے میں فروخت ہوتا رہا‘ اب اسکی قیمت1500 روپے ہوگئی ہے‘ انجکشن گریوینیٹ 253 سے بڑھ کر626 روپے کا ہوگیا ہے‘ ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے عام مریضوں کی مشکلات بڑھی ہیں جبکہ ان مریضوں کیلئے صورتحال اذیت ناک ہے کہ جو مستقل بنیادوں پر دوائیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں ‘ادویات کی قیمتوں میں صرف اضافہ ہی پریشان کن نہیں دواﺅں کا معیار بھی سوالیہ نشان ہی رہتا ہے ‘پشاور میں متعلقہ دفاتر کی جانب سے کبھی کبھار کے چھاپوں میں اس حوالے سے ہوشربا انکشافات سامنے آتے ہیں طلب اور رسد کے درمیان عدم توازن اکثر اوقات نوٹ ہوتا ہے جس سے صورتحال مزید تشویشناک ہوجاتی ہے‘ ادویات کے کیس میں معیار کی اہمیت انسانی صحت اور زندگی سے جڑی ہوئی ہوتی ہے ادویہ سازی کے مراحل میں عالمی سطح پر بنائے گئے قاعدے قانون کی پابندی کے ساتھ سٹوریج کے حوالے سے بھی خصوصی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے ہاں اکثر اوقات دوائیں دھوپ میں بھی پڑی رہتی ہیں اسی طرح درکار درجہ حرارت کا انتظام بھی ضروری ہوتا ہے ‘خیبر پختونخوا کی حد تک یہ سارے مسائل عوام کو علاج کیلئے فراہم کی جانے والی سہولیات کے حوالے سے مزید تشویشناک صورت اختیار کئے ہوئے ہیں‘ صوبے میں یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں صحت کے سیکٹر میں اصلاحات کو ترجیحات میں سرفہرست قرار دیتی ہیں ‘اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس ضمن میں اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں تاہم حکومتی اقدامات پر عملدرآمد کے مراحل میں نگرانی کا محفوظ انتظام نہ ہونے پر برسرزمین عملی ثمرآور نتائج کم ہی دکھائی دیتے ہیں درجنوں کے حساب سے حکومتی اقدامات اپنی جگہ ‘سرکاری علاج گاہوں میں عوام کو درپیش مشکلات کا اندازہ ہسپتالوں کی رپورٹس سے نہیںبرسرزمین جاکر موقع دیکھنے سے ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ پورا دن سرکاری علاج گاہوں میں سہولیات نہ ملنے پر شام کو نجی اداروں سے رجوع کرنے والوں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے ضرورت مرکز اور صوبوں کی سطح پر عوام کو علاج کی سہولیات یقینی بنانے کے لئے موثر انتظام کی ہے جس میں ہر پہلو کو مدنظر رکھنا ہوگا۔