قابل تشویش

وفاق اور خیبر پختونکوا کے ذمے قرضوں کے حوالے سے مہیا اعداد و شمار تشویشناک ہونے کے ساتھ متقاضی ہیں اس بات کے کہ اب اصلاح احوال کی جانب پیشرفت میں کسی تاخیر کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ نومبر 2024ء تک حکومت کے ذمے قرضوں کا مجموعی حجم 70 ہزار 366 ارب روپے ہو گیا ہے‘ اس میں مقامی قرضہ 48 ہزار 585 ارب روپے ہے جبکہ بیرونی قرضوں کا والیوم 21 ہزار ارب سے زائد بتایا جا رہا ہے‘ صرف ماہ نومبر 2024ء میں حکومت نے 1 ہزار 252 ارب روپے کا قرضہ لیا ہے۔ دریں اثناء خیبر پختونخوا کے ذمے واجب الادا قرضوں کا حجم 725 ارب روپے بتایا جا رہا ہے‘ اکانومی کو درپیش سنگین چیلنجوں اور قرضوں کے انبار کے باعث مشکلات کے گرداب سے نکلنے کے لئے مرکز اور صوبے کی سطح پر یقینا اقدامات اٹھائے بھی جا رہے ہیں تاہم اتنے بڑے بگاڑ کو سنوارنے میں ابھی بہت وقت لگنا ہے یہ ٹاسک اس نوعیت کا بھی نہیں کہ دو چار اجلاسوں میں ملٹی میڈیا پر بریفنگ سے یکسو ہو سکے۔ مرکز اور خیبر پختونخوا میں فنانشل منیجرز کے طور پر ٹیکنو کریٹس کی تعیناتی کی گئی ہے‘ مرکز میں صورتحال سے نمٹنے اور آنے والے دنوں کی مشکلات سے بچنے اور آئی ایم ایف کے دیئے گئے اہداف کو پانے کے لئے اقدامات میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے‘ رائٹ سائزنگ کے عمل میں 10 وفاقی وزارتوں کے 40 محکمے ختم کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے‘ متعدد محکمے صوبوں کے ساتھ نجی شعبے کو دینے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے‘ اس سارے عمل میں ضرورت ملازمین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہے‘ پیش نظر رکھنا ہو گا کہ دستور میں ترمیم کے نتیجے میں بعض دفتر صوبوں کے حوالے کئے گئے تاہم ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ عمل پوری طرح مکمل نہ ہو سکا اس لئے ضرورت اس ضمن میں ہوم ورک مکمل کرنے کی ہے تاکہ پہلے والی صورتحال سے بچا جا سکے۔ مرکز اور خیبر پختونخوا میں اقتصادی اور دوسرے شعبوں میں درپیش مشکلات اپنی جگہ حقیقت سہی ضرورت اس حوالے سے اصلاح احوال کے ساتھ اس سارے منظر نامے میں عوام کو پیش آنے والی مشکلات کے احساس و ادراک کی ہے اس وقت صوبے کی سطح پر مارکیٹ کنٹرول کے لئے ایک مؤثر نظام کی ضرورت ہے کہ جس میں عوام کو کم از کم مصنوعی گرانی‘ ذخیرہ اندوزی اور مضر صحت ملاوٹ سے چھٹکارہ مل سکے‘ اس مقصد کے لئے دو چار چھاپوں پر اکتفا کی روش ترک کر کے ٹھوس اقدامات یقینی بنانا ہوں گے۔