اسلام آباد اور پشاور میں ایک ہی روز دو بڑے فیصلے سامنے آئے ہیں وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر کابینہ میں شامل وزراء کی کارکردگی جانچنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے اس حوالے سے مہیا تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نے تمام وزارتوں اورمحکموں کی کارکردگی رپورٹ کے ساتھ ایک سال کے دوران دی جانے والی ملازمتوں کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں اس طرح سے اداروں کے اندر ہونے والی اصلاحات سے متعلق بھی معلومات اکٹھی ہو جائیں گی‘ بعدازخرابی بسیار سہی اگر وزیراعظم نے کابینہ اراکین اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پرکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اسے صرف معمول کی کاروائی تک محدود نہ رکھا جائے‘ اس حوالے سے اگر بات کاغذی کاروائی کی ہے تو وطن عزیز میں سرکاری فائلوں کے اندر لگی ہوئی رپورٹس ہمیشہ سے انتہائی حوصلہ افزا رہی ہیں اب بھی اعلیٰ سطح اجلاسوں میں ملٹی میڈیا پر جس انداز میں رنگ برنگی سلائیڈز پر حکام کو بریفنگ دی جاتی ہے اس میں دیئے گئے اعدادوشمار اور بڑے بڑے دعوؤں کی روشنی میں لگتا ہے کہ سب اچھا ہوگیا ہے کارکردگی کی کسوٹی پربرسر زمین عملی اقدامات کو رکھا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا‘ اس حوالے سے ضروری یہ بھی ہے کہ سرکاری اعلانات اور ان پرعملدرآمد کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے‘ سرکاری رپورٹس پر انحصار کی بجائے ذمہ دار حکام کو آن سپاٹ عملی اقدامات کا پابند بنایا جائے کارکردگی رپورٹ کی جانچ میں یہ فیصلہ بھی کرنا ضروری ہے کہ معیار کے مطابق کام نہ کرنے والوں کیخلاف کاروائی سے کسی بھی مصلحت کی پرواہ کئے بغیر گریز نہیں ہونا چاہئے درپیش منظرنامے کے تناظر میں خیبرپختونخوا حکومت نے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے اینٹی کرپشن اتھارٹی اور فورس کے قیام کا اہم فیصلہ کرنے کے ساتھ اس ضمن میں قانون سازی کی ہدایت بھی کی ہے‘ وزیراعلیٰ سردار علی امین گنڈا پور اس ضمن میں ایک بار پھر یہی کہتے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہیں کرپشن کا خاتمہ ان اہم نکات میں شامل ہے کہ جن پر کبھی اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی‘ کوئی بھی پارٹی چاہے حکومت میں ہو یا پھر حزب اختلاف کا حصہ ہو‘کرپشن کے خاتمے کو اپنی ترجیحات کا حصہ ہی قرار دیتی ہے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے حکومتوں کی سطح پر اقدامات کی تفصیل میں عام شہری اپنے جائز مسائل کے حل کی راہ میں گراس روٹ لیول پر اصلاح احوال کا متقاضی رہتا ہے‘بہتر ہوگا کہ بڑے پیمانے پر کاروائیوں کے معمول کے ساتھ عام شہری کے مسائل کے حل کی جانب بھی بڑھا جائے۔
