تلخ حقائق کا سامنا ضروری ہے

سیاست کی گرماگرمی کیساتھ مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار حکومتیں تسلسل کیساتھ تعمیر و ترقی اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے اعلانات کر رہی ہیں‘ اہم اجلاسوں میں بڑے بڑے اہم فیصلوں کی منظوری بھی ہورہی ہے جس میں عوام کیلئے بہت ساری خوشخبریاں موجود ہوتی ہیں اس سب کے باوجود ملک میں عام شہری کے مسائل کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے‘ حکومت مرکزی ہو یا کسی بھی صوبے میں اس کے اعلان کردہ میگا پراجیکٹس کی تکمیل وقت طلب ہوتی ہے اکثر اوقات حکومتوں کی تبدیلی کیساتھ متعددمنصوبوں کی بساط بھی لپیٹ دی جاتی ہے‘ اس کے علاوہ حکومتوں کے متعدد اعلانات اس وجہ سے بھی بے ثمر رہ جاتے ہیں کہ متعلقہ سرکاری مشینری کا آپریشن ضرورت کے مقابلے میں کافی نہیں ہوتا اس صورت میں بھی عوام کیلئے حکومت کے جاری احکامات کوئی اہمیت نہیں رکھتے‘ فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے ذمہ دار دفاتر کیلئے ضروری ہے کہ وہ حکومتی حکمت عملی کو فوری‘ وسطی اور طویل مدتوں کے حوالے سے تقسیم کریں عوام کی فلاح و بہبود اور بہتر خدمات کی فراہمی کیلئے ضروری ہے کہ سرکاری مشینری کو گراس روٹ لیول پر جائز ریلیف یقینی بنانے کا کہا جائے اس سب کیساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ درپیش حالات کا حقیقی جائزہ لیتے ہوئے تلخ حقائق کا سامنا کیا جائے اس سب کی روشنی میں ترجیحات کی فہرست کو ری وزٹ کیا جائے اس وقت ملک کو اقتصادی شعبے میں درپیش مشکلات کے تناظر میں عام آدمی کو سخت مہنگائی کا سامنا ہے‘ اس صورتحال سے  نمٹنے کیلئے منڈی کنٹرول کیلئے اقدامات کسی صورت کافی قرار نہیں دیئے جا سکتے‘ سرکاری سطح پر چیک اینڈ بیلنس کے ذمہ دار دفاتر کی گلی محلے کی سطح پر رسائی تک نہیں‘ گرانی کیساتھ ملاوٹ انسانی صحت کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے میونسپل سروسز کا معیار سوالیہ نشان ہے پینے کا صاف پانی تک آبادی کے ایک بڑے حصے کو میسر نہیں سروسز کے اداروں میں مشکلات تمام اعلانات کے باوجود اپنی جگہ ہیں تعلیم کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت اپنی جگہ ہے ریونیو ریکارڈ کو مکمل طور پر ڈیجیٹل پر لانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے والے صارفین بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہروں اور روڈ بلاک کرنے پر مجبور ہیں کیا ہی بہتر ہوکہ حقائق سے چشم پوشی کی روش ترک کرتے ہوئے برسرزمین عملی نتائج یقینی بنانے کیلئے حکمت عملی ترتیب دی جائے۔