سیاسی تناؤ اور88ہزار ارب سے زائد کے قرضے

ملک میں سیاست کا میدان بدستور تپ رہا ہے سیاسی گرما گرمی‘تناؤ اور کش مکش کے اس ماحول میں بینک دولت پاکستان کے جاری اعداد و شمار انتہائی تشویشناک ہونے کے ساتھ اصلاح احوال کے لئے اقدامات کے متقاضی ہیں‘سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزرے ایک سال کے دوران ملک کے ذمے قرضوں کے بوجھ میں 6 ہزار106 ارب روپے کا اضافہ ہوا‘ اس اضافے کیساتھ قرضوں کا مجموعی حجم88ہزار ارب روپے سے بھی تجاوز کرگیا‘ قرضوں کی تفصیلات میں بتایا جا رہا ہے کہ مقامی قرضہ49ہزار883 ارب جبکہ غیرملکی واجبات 36ہزار512ارب روپے ہیں بینک ایک سال کے دوران اٹھائے گئے6ہزار106ارب روپے کے قرضوں کو ریکارڈ قرار دیتا ہے‘ بینک کی جانب سے تفصیل کے مندرجات میں پڑے بغیر اس بات کے احساس کی فوری ضرورت ہے کہ اگر قرضوں کا سلسلہ اسی طرح بڑھتا گیا تو معاملات کس قدر سنجیدہ صورت اختیار کرتے چلے جائینگے‘ اس وقت بھی قرض دینے والوں کی شرائط کا عالم یہ ہے کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے بھی آئی ایم ایف سے بات کرنے پر مجبور ہے قرضوں کے لوڈ نے ملک میں تعمیر و ترقی کے عمل کو تو متاثر کیا ہی ہے عوام پر گرانی کے گراف میں مسلسل اضافہ اذیت ناک بوجھ کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے حکومت کی جانب سے اصلاح احوال کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے ان اقدامات میں سے متعدد وہی ہیں کہ جو قرضہ دینے کیلئے آئی ایم ایف کی فہرست میں شامل ہیں اصلاح احوال کیلئے جاری کوششوں میں آئی ایم ایف ہی کی شرائط میں شامل فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے پالیسی سازی کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے اسکے ساتھ ہی وزارت خزانہ میں ٹیکس پالیسی آفس قائم کر دیاگیا ہے معیشت کے شعبے میں برسوں کا بگاڑ متقاضی ہے کہ اس کو سنوارنے کیلئے ایک کنکریٹ حکمت عملی ترتیب دی جائے تاکہ مشکلات کے گرداب میں پھنسی اکانومی کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا جاسکے اسی کے ساتھ غریب عوام کا ریلیف بھی جڑا ہوا ہے اس سب کیلئے قومی قیادت کو مل بیٹھ کر ایک دوسرے کا مؤقف سنتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی کہ جو پائیدار ہو اس پر عملدرآمد کو مختصر‘وسطی اور طویل کے حساب سے مدت میں تقسیم کیا جائے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ملک میں حکومتوں کی تبدیلی کیساتھ اقتصادی شعبے کی یہ پلاننگ متاثر نہ ہونے پائے اس پوری منصوبہ بندی میں ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے عوام کے ریلیف کو سرفہرست رکھا جائے اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس وقت پورے منظرنامے میں سب سے زیادہ متاثر وہ غریب شہری ہے کہ جو اس ساری صورتحال کا قطعاً ذمہ دار ہی نہیں۔