تلخ حقائق سے آنکھیں چار کرنے کی ضرورت

ایوان صدر نے وفاقی حکومت سے ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ مانگ لی ہے اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس رپورٹ کے اہم نکات پر بات کرینگے‘ دریں اثناء خیبرپختونخوا حکومت نے اپنی ایک سالہ کارکردگی پر مبنی کتاب شائع کردی ہے‘ کتاب کا عنوان 25سیکٹرز میں پچیس پچیس کارنامے ہیں‘ اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی ایک سال کے دوران حکومتی کارکردگی کی جائزہ رپورٹس جاری کی جارہی ہیں‘ دوسری جانب عالمی بینک وطن عزیز میں معاشی استحکام پر اطمینان کا اظہار بھی کر رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کی روشنی میں کلائمنٹ فنانسنگ کی مد میں ڈیڑھ ارب ڈالر ملنے کا امکان بھی ہے‘ حکومت مرکز میں ہو یا پھرکسی بھی صوبے میں اس کی ترجیحات اور وژن میں عوام کوریلیف دینا بھی شامل رہتا ہے جبکہ تعمیر و ترقی کیلئے پراجیکٹس بھی ترجیحات کا حصہ رہتے ہیں‘ وطن عزیز میں گوکہ اقتصادی منظرنامے میں قرضہ دینے والوں کی شرائط پرعملدرآمد مجبوری بن چکا ہے‘  اس کے باوجود بھی حکومتیں مرکز یا صوبوں کی سطح پر گنجائش کے مطابق اقدامات اٹھاتی رہتی ہیں ترقیاتی منصوبوں سے متعلق تو صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پی ایس ڈی پی میں کوئی نیا منصوبہ منظوری کے بغیر شامل نہ کرنے کا کہا ہے جس پر مالیاتی ادارے کو یقین دہانی کرادی گئی ہے‘ اس سب کے باوجود حکومتی سطح پر اٹھائے جانے والے ممکن اقدامات رپورٹس میں موجود ہیں‘ مرکز اور صوبوں کی سطح پر حکومتی کی کارکردگی رپورٹس کے مندرجات میں پڑے بغیر اس تلخ حقیقت سے چشم پوشی کی گنجائش نہیں کہ ملک میں عام شہری شدید مشکلات کا سامناکر رہاہے‘ کمر توڑ مہنگائی نے غریب کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے‘بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے باعث نوجوان مایوسی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں بنیادی شہری سہولیات کا فقدان اپنی جگہ پریشان کن ہے آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں اس حوالے سے خود ذمہ دار دفاتر کی رپورٹس موجود ہیں‘سروسز کے اداروں میں خدمات کا معیار اور وسائل بمقابلہ مسائل اپنی جگہ پریشان کن ہیں توانائی بحران سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ جس میں بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے والے صارفین طویل لوڈشیڈنگ برداشت کرنے پر مجبور ہیں‘ درپیش صورتحال متقاضی ہے کہ مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار حکومتیں ارضی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مہیا وسائل کے ساتھ اصلاح احوال پہلے مرحلے پر یقینی بنائیں اسی کو بہتر طرز حکمرانی یعنی گڈ گورننس کہاجاتا ہے۔