ملک بھر میں رمضان المبارک کل شروع ہو رہا ہے‘قبل ازیں مارکیٹ کنٹرول کیلئے درجنوں اعلانات آتے رہے جبکہ دوسری جانب عام صارف کو ریلیف کا کوئی احساس نہ ہو سکا‘ ہر سال کی طرح عوام نے رمضان المبارک سے پہلے مہینے بھر کی ضروریات کیلئے خریداری کی اور اس دوران بازاروں میں بے انتہا رش رہا‘ ادارہ شماریات کی رپورٹس میں مہنگائی کی شرح میں کمی کے حوالے سے آئے روز رپورٹ آتی ہے جبکہ مارکیٹ میں اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے‘ اس کی بنیادی وجہ منڈی کنٹرول کیلئے انتظامات کی گراس روٹ لیول پررسائی کا نہ ہونا ہے‘اس میں ماضی قریب کے طریقہ کار کا فائلوں میں بند ہو جانا بھی شامل ہے‘گلی محلے کی سطح پر نرخوں اور معیار کی جانچ کیلئے ضروری ہے کہ اس اہم ذمہ داری میں عوامی نمائندوں اور تاجر تنظیموں کو بھی شامل کیا جائے‘ضروری یہ بھی ہے کہ منڈی کنٹرول کے ذمہ دار اداروں کے وسائل اور افرادی قوت کو یکجا کیا جائے‘ماضی قریب میں رائج مجسٹریسی نظام بھی بحال ہونے کی گنجائش موجود ہے کہ جس کی بساط جنرل پرویز مشرف کے دور میں ضلعی حکومتوں کے نظام میں لپیٹ دی گئی تھی‘ مارکیٹ کنٹرول میں پرائس ریویو کمیٹیوں کی فعالیت سے متعلق ایک سے زائد مرتبہ عندیے دیئے ضرور جاتے ہیں‘ جبکہ عملی پیش رفت کا انتظار ہی رہتاہے‘ ملک میں مسئلہ صرف مہنگائی نہیں کھانے پینے کی اشیاء کا غیر معیاری ہونا بھی ہے کہ جو براہ راست انسانی صحت و زندگی سے جڑا ہے‘ اس حوالے سے خود ذمہ دار سرکاری ادارے اپنے چھاپوں میں تشویشناک صورتحال بتاتے رہتے ہیں حکومتی سطح پر خیبرپختونخوا میں فوڈ ٹیسٹنگ لیبارٹریاں موجود ہیں جن کیلئے موبائل یونٹ بھی فراہم کئے جاچکے ہیں ایک ایسے وقت میں جب تمام تر حکومتی اعلانات کے باوجود عوام کو رمضان المبارک سے قبل خریداری میں عملی طورپر ریلیف کا احساس نہیں ہو پایا فیصلہ سازی کے ذمہ دار دفاتر کیلئے ضروری ہے کہ اب اس سقم کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کریں کہ جو پورے آپریشن میں موجود ہے اور دیرآید درست آید کے مصداق رمضان المبارک کے دوران مارکیٹ کنٹرول یقینی بنایا جائے‘ حکومت مرکز میں ہو یا کسی بھی صوبے میں اس کے اعلانات اور عوام کو سہولت دینے کیلئے اقدامات اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتے ہیں جب ان اعلانات اور انکے بہتر نتائج کے درمیان فاصلے کم کئے جائیں جس کیلئے موثر حکمت عملی ناگزیر ہے۔
