کڑی نگرانی کا محفوظ نظام؟

خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں مفت سولر پینل سکیم کا اجراء کردیا ہے‘ سولرائزیشن آف ہاؤسز کے نام سے اس منصوبے سے متعلق اعدادوشمار بھی جاری ہوئے ہیں سکیم کے تحت صوبے میں 1لاکھ30ہزار درخواست گزار گھروں میں سے32 ہزار500 کو مفت جبکہ باقی کو نصف قیمت اور آسان اقساط پر یونٹس دیئے جائینگے سکیم کے مقاصد میں غریب عوام کو ریلیف اور نیشنل گرڈ پر بوجھ کم کرنا بتایا جارہا ہے‘ سولر سسٹم کیلئے صوبے کے تمام اضلاع کو آبادی کے مطابق حصہ دیا گیا ہے‘ وطن عزیز کو اکانومی کے سیکٹر میں درپیش چیلنجوں میں سب سے زیادہ لوڈ عام شہری برداشت کر رہاہے اس عام شہری کو آج کل ریلیف دینے کا سلسلہ مرکز اور صوبوں کی سطح پر جاری ہے‘ اس کیلئے ہر حکومت اپنے اپنے لیول پر اعلانات کرتی چلی جارہی ہے کسی اعلان میں رقوم مل رہی ہیں کسی میں مکانات اور پلاٹ‘کہیں علاج کے شعبے میں ریلیف دیا جارہاہے تو کہیں تعلیم کے سیکٹر ہیں‘ اس سارے عمل میں فوکس غریب عوام ہی کو کیا جارہا ہے ماضی میں وطن عزیز کے اندر مختلف ادوار کے بہت سارے حکومتی منصوبے محض اس وجہ سے پوری طرح ثمر آور صورت اختیار نہ کرپائے کہ ان میں اعلان کردہ ریلیف صحیح طورپر مستحق تک پہنچانے کیلئے میکنزم محفوظ نہ پایا گیا‘ بہت سارے منصوبوں پر سیاسی بندربانٹ کا سوالیہ نشان لگا اس طرح متعدد پراجیکٹس صرف اعلانات تک ہی رہتے‘ قابل اطمینان ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈاپور اس حوالے سے خود ہی بتا رہے ہیں کہ سولریونٹس کی فراہمی کے سلسلے میں مستحق گھرانوں کے انتخاب کو سیاسی اور انسانی عمل دخل سے دور رکھا گیا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکیم میں کسی سفارش کو ترجیح نہیں دی گئی‘ اس حوالے سے ضرورت یہ ہے کہ سولر پینل ہوں یاکسی بھی سیکٹر میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوئی اور اقدامات چیک اینڈ بیلنس کامحفوظ نظام وضع کیا جائے سولر پینلز کے کیس میں باقاعدہ آڈٹ کیا جائے اور اس آڈٹ رپورٹ میں دیکھا جائے کہ جس گھرانے کو پینل دیئے گئے کیا وہ اس کا مستحق تھا اس کو پینلز کے حصول میں مشکلات تو درپیش نہیں آئیں اسے کہیں کوئی ادائیگی تو نہیں کرنا پڑی اور یہ کہ دیئے گئے پینل معیار کے حوالے سے قابل اطمینان بھی ہیں یا نہیں وقت کا تقاضہ ہے کہ وطن عزیز میں مرکز اور صوبوں کی سطح پر اس سلسلے کا خاتمہ کیا جائے کہ جس میں حکومتوں کی تبدیلی کے بعد فلاحی اور ترقیاتی سکیموں سے متعلق بڑے بڑے سکینڈل منظرعام پر لائے جاتے ہیں اس حوالے سے وضع کئے جانے والے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو ہر پہلو سے محفوظ بنانا ہوگا۔