خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال تشویشناک ہے ملک کو اقتصادی شعبے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے‘ اکانومی کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہے‘ توانائی بحران شدت اختیار کئے ہوئے ہے‘ عوام کو بنیادی شہری سہولیات کے فقدان کا سامنا ہے‘ بے روزگاری پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہے دوسری جانب ملک کے سیاسی محاذ پر تناؤ اور کشمکش کے ماحول میں ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی گولہ باری پوری شدت سے جاری ہے عرصے سے جاری تناؤ کی صورتحال میں ایک سے زائد مرتبہ انتخابات بھی ہو چکے ہیں اور مرکز و صوبوں میں حکومتیں بھی بنی ہیں حکومت سازی کے مراحل میں ٹریژری اور اپوزیشن بنچ تبدیل ہوئے ہیں تاہم اس سب کے ساتھ کبھی ایک تو کبھی دوسرے ایشو پر سیاسی منظرنامے میں مدوجزر ہی دیکھا گیا ہے‘ ملک کی معیشت پر کھربوں روپے کے قرضوں کی بات کی جائے تو ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے عوام کو درپیش بنیادی مسائل ہر حکومت اپنے سے پہلے کے حکمرانوں کی عدم توجہی کے زمرے میں ڈال دیتی ہے‘ وقت کا تقاضا برسرزین تلخ حالات سے چشم پوشی کی روش ترک کرکے ان سے آنکھیں چار کرنے کا ہے تاکہ مسائل کے حل کی جانب بڑھا جائے اس کیلئے صورتحال کا ذمہ دار کون کی بحث میں الجھے بغیر اصلاح احوال کی ذمہ داری اٹھانے کی بات ضروری ہے‘ وطن عزیز میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف رائے معمول کا حصہ رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اہم قومی امورپر مل بیٹھ کر بات کرنے کی گنجائش بھی ناگزیر ہی رہی ہے ماضی میں اہم چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے گول میز کانفرنس‘ اے پی سی اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں بات ہوتی رہی ہے حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے گزشتہ دنوں اے پی سی کے حوالے سے اچھی خبریں آئیں تاہم ثمر آور عملی نتائج تادم تحریر سامنے نہ آسکے وقت کا تقاضہ ہے کہ صورتحال میں خرابی کا مزید انتظار کرنے کی بجائے اب اسے سنوارنے کا سوچا جائے اس مقصد کیلئے کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کا موقف سننا ضروری ہے اس سب کیلئے بنیادی کردار سینئر قومی قیادت کو ادا کرنا ہوگا تاکہ کم از کم اہم قومی امور پر حکمت عملی میں سب کی رائے اور موقف شامل ہو اور اس طرح درست سمت میں آگے بڑھا جا سکے۔
