خیبرپختونخوا کی معیشت؟

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈاپور نے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کیلئے اجلاس بلانے سے متعلق توجہ مبذول کروانے کے بعد اب صوبے کے پن بجلی منافع سے متعلق وزیراعظم کو مراسلہ بھجوایا ہے‘ اس مراسلے میں جو گزشتہ روز ارسال ہوا‘وزیر اعلیٰ نے اعدادوشمار کے ساتھ پن بجلی منافع کی ادائیگی کا کہا ہے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سے جڑے معاملات کو بروقت یکسو کرنا آئینی ذمہ داری ہے جس میں تاخیر سے بہت سارے معاملات حل طلب رہتے ہیں جہاں تک خیبرپختونخوا کیلئے پن بجلی منافع کے بقایا جات کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ذمہ دار دفاتر کے پاس موجود اعدادوشمار اور میڈیا رپورٹس پر مشتمل تفصیلات کے مطابق پن بجلی گھروں کی آمدنی سے متعلق دستور میں واضح ہے کہ یہ متعلقہ صوبوں کو ملے گی یہ رقم کس تناسب سے ملنی ہے یہ کیس مشترکہ مفادات کونسل کے دائرہ اختیار میں دیا گیا ہے یہ فورم شرح منافع کا تعین کرے‘ اس آئینی فیصلے پر عملدرآمد کا آغاز1990ء کی دہائی میں شروع ہوا اور1992ء میں خیبرپختونخوا کو پہلی ادائیگی کے طور پر6ارب روپے ملے‘ بعد ازاں منافع کی شرح کے تعین کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں ادائیگی کا تسلسل برقرار نہ رہ سکااس سب کے نتیجے میں خیبرپختونخوا کے وفاق کے ذمے واجبات بڑھنا شروع ہوئے اس ضمن میں مطالبات بھی ہوئے مذاکرات بھی ہوئے کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں اور خوش کن اعلانات بھی ہوتے رہے تاہم برسرزمین ثمرآور نتائج کا ہنوز انتظار ہی ہے‘ حکومتی سطح پر تشکیل دی گئی ایک خصوصی کمیٹی خود128 ارب روپے صوبے کے واجبات کی مد میں تصدیق کرچکی ہے‘ وطن عزیز کی معیشت اس وقت ایک سخت دور سے گزر رہی ہے‘ ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے جبکہ قرضوں کا لوڈ وقت کیساتھ مزید بڑھتا چلا جارہاہے خیبرپختونخوا کا کیس متعدد حوالوں سے انفرادیت کا حامل بھی ہے اس صوبے کا جغرافیہ یہاں درپیش صورتحال‘ لاکھوں افغان مہاجرین کی طویل عرصے سے میزبانی‘ امن وامان کی صورتحال کے ماضی قریب میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں پر مرتب ہونے والے اثرات‘ صوبے کاحصہ بننے والے نئے اضلاع میں تعمیر و ترقی جیسے امور متقاضی ہیں کہ صوبے اور وفاق کے متعلقہ دفاتر ارضی حقائق کی روشنی میں مل بیٹھ کر معاملات کو یکسو کریں تاکہ خیبرپختونخوا کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔