خیبرپختونخوا کے دارالحکومت کی ترقی اور اپ لفٹ کیلئے قائم خصوصی ٹاسک فورس کے اجلاس کا ایجنڈا اور اس میں ہونے والے فیصلے سب قابل اطمینان ہیں‘ اس اجلاس سے متعلق جاری تفصیلات کے مطابق میٹنگ میں پشاور ترقیاتی ادارے کی ری سٹرکچرنگ سے متعلق تجاویز پیش کی گئیں اجلاس میں پشاور کیلئے جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی خیبرپختونخوا کا دارالحکومت پشاور اپنی آبادی بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کے باعث ایک عرصے سے مسائل کا شکار ہے ان مسائل کی شدت کا گراف وقت کیساتھ مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے ان مسائل کے ساتھ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں اس شہر کی تعمیر و ترقی اور یہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے ایسے خوش کن اعلانات کرتی چلی آرہی ہیں کہ جن سے دکھائی یہ دیتا ہے کہ چند ہی دنوں میں پشاور دنیا کے ترقی یافتہ اور خوبصورت شہروں میں شامل ہو جائے گا تاہم برسرزمین صورتحال اسکے برعکس روزبروز مزید بگڑتی چلی جاتی ہے شہر کے مسائل کے حل یا پھر صوبے کے صدر مقام کی خوبصورتی کیلئے کوئی اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں تو اکثروہ مرکزی شارع جی ٹی روڈ اور چند دوسری سڑکوں تک محدود ہی رہتے ہیں اندرون شہر اور اس کے اطراف میں پھیلنے والی ہر قاعدے قانون اور اربن پلاننگ سے آزاد آبادی میں ان اقدامات اور ان کے نتائج کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی اب کی بار صوبے کی حکومت نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دے کر اصلاح احوال کے کام کا کہا ہے‘ اس ٹاسک فورس کے قیام اور اسکے دائرہ اختیار سے متعلق جو تفصیلات سرکاری دستاویزات میں دستیاب ہیں ان کے مطابق تعمیر و ترقی اور سروسزکے ذمہ دار صوبائی محکموں کی کوششوں کو یکجا اور جامع بنانا بھی شامل ہے اس حوالے سے طے پائے جانے والے طریقہ کار کے مطابق فیلڈ میں کمشنر پشاور تمام سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کرینگے اور ٹاسک فورس کو پیش رفت سے آگاہ کریں گے فورس کا قیام حکومت کی سطح پر پشاور سے متعلق احساس و ادراک کا عکاس ہے مانیٹرنگ کی صورت اس سقم کو دور کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے جو حکومتی اعلانات اور انکے عملی نتائج کے درمیان فاصلے کی وجہ بنا ہوا ہے اس حوالے سے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے پر ہوم ورک میں ارضی حقائق کی روشنی میں مسائل کی فہرست مرتب ہو اسکے بعد مہیا وسائل کے اندر ان کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تیسرے مرحلے میں اضافی وسائل کا انتظام ہو اس سب کیساتھ مدنظر رکھا جائے کہ ثمر آور نتائج عملی اقدامات سے ہی نظر آئینگے سرکاری دفاتر کی سب اچھا ہے کی رپورٹس پر انحصار چھوڑنا ہوگا۔
