وفاقی وزارت خزانہ نے گزشتہ روز ملکی قرضوں سے متعلق رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہے‘ رپورٹ کے مطابق ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا حجم 75ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اس میں ملکی قرضہ 51ہزار جبکہ بیرونی 24 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے قرضوں سے متعلق انتہائی پریشان کن اعداد و شمار میں بات یہی پر ختم ہو جاتی تو بھی اصلاح احوال کیلئے کوششوں کا آغاز ہو سکتا تھا قرضوں کے حصول پر کوئی فل سٹاپ نہیں لگ رہا‘ذمہ دار سرکاری دفاتر اپنی تمام کوششیں قرضوں کے حصول اور ان کیلئے رابطوں پر صرف کرتے رہتے ہیں‘ ملک کی معیشت کے حوالے سے یہ بگاڑ بہت وقت سے چلا آرہا ہے‘ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے کم اور زیادہ کے فرق سے قرضوں کے انبارمیں اضافے کا سلسلہ تقریباً جاری رکھا ہوا ہے‘ اس کے ساتھ ہی نئی برسراقتدار آنے والی ہر حکومت پوری صورتحال کی ذمہ داری اپنے سے پہلے کے حکمرانوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتی ہے ملکی اقتصادی صورتحال سے متعلق ذمہ دار کون کی بحث اتنی طولانی ہو جاتی ہے کہ جس میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات الفاظ کی گولہ باری بن جاتے ہیں درپیش صورتحال میں اگر کوئی اس وقت صحیح معنوں میں متاثر ہے تو وہ ملک کا غریب شہری ہے حکومت قرضوں کے حصول کیلئے بحث مباحثے کے بعد قرض دینے والوں کی شرائط پر عمل درآمد کیلئے مجبور ضرور ہوتی ہے تاہم ان شرائط کا بوجھ خاموشی کے ساتھ عوام پر ڈالنے کا سلسلہ ہردور حکومت میں جاری ہی رہتا ہے صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ملک میں غریب شہری کو ٹیکسوں کی بھرمار اور پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث جس طرح مہنگائی کا سامنا ہے سو ہے مارکیٹ کنٹرول کیلئے انتظامات فول پروف نہ ہونے کے باعث اسے مصنوعی مہنگائی اور صحت و زندگی کیلئے خطرہ بننے والی ملاوٹ بھی برداشت کرنا پڑتی ہے اس شہری کو لوڈشیڈنگ اور ترسیل کے نظام میں خرابیوں کے باوجود قرضے دینے والوں کی شرائط کے مطابق بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنا پڑتے ہیں درپیش صورتحال اور پریشان کن اعداد و شمار اس بات کے متقاضی ہیں کہ بعداز خرابی بسیار سہی اب اصلاح احوال کی جانب بڑھنا ضروری ہے اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف متعدد مرتبہ عزم دہراچکے ہیں ضرورت ہے کہ حکومت اس حوالے سے وسیع مشاورت سے حکمت عملی کی ترتیب یقینی بنائے۔
