انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پاکستان کو قرضوں کے اجراء کے ساتھ اپنے مطالبات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے‘ آئی ایم ایف کے مطالبے پر وفاقی حکومت نے 168 نامکمل ترقیاتی منصوبوں پر کام بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اب ان منصوبوں کے لئے فنڈز جاری نہیں ہوں گے‘ ان منصوبوں کی مالیت 1.1 ٹریلین روپے بتائی جا رہی ہے‘ منصوبوں کی بندش سے عوام کو ملنے والی سہولت کہ جس کے لئے یہ پراجیکٹس شروع ہوئے اب نہیں مل پائے گی جبکہ اب تک ان منصوبوں پر ہونے والے اخراجات بھی فی الوقت ضائع ہی ہو گئے جب دوبارہ ان پراجیکٹس پر کام ہوا تو حالات کے ساتھ ان کا تخمینہ لاگت کئی کئی گنا بڑھ چکا ہو گا‘ اس سب کے ساتھ عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں رواں مالی سال کے لئے شرح نمو کا تخمینہ مزید کم کر دیا ہے‘ اس سے پہلے یہ تخمینہ 3 فیصد لگایا گیا تھا جو اب ذمہ دار دفاتر کے پاس مہیا اعداد و شمار کے مطابق 2.6 فیصد کر دیا گیا ہے۔ دریں اثناء درپیش صورتحال کے تناظر میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت تجارتی خسارے کے ضمن میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے امریکہ کے ساتھ بات چیت چاہتی ہے‘ وطن عزیز کو معاشی مشکلات میں بھاری قرضے اٹھانا پڑ رہے ہیں‘ ہر قرضے کے لئے شرائط کی آنے والی فہرست پر عمل درآمد مجبوری بن چکی ہے‘ قرضوں سے متعلق ذمہ دار سرکاری دفاتر کی رپورٹس تشویشناک ہی ہوتی ہیں اب بھی خبر رساں ایجنسی کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان نے 12.5 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ حاصل کیا‘ اس قرض کے حجم سے متعلق اقتصادی امور ڈویژن کا کہنا ہے کہ مجموعی رقم میں چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے رول بیک ہونے والے قرضے بھی شامل ہیں‘ ان کا والیوم 6.9 ارب ڈالر بنتا ہے‘ اس طرح 5.51 ارب ڈالر قرضے اور گرانٹس کی مد میں ہیں‘ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل مجبوری ضرور ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اکانومی کو قرضوں کے اس گرداب سے نکال دیا جائے کہ جن کے باعث شرائط تسلیم کرنا مجبوری ہوتا ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ قومی قیادت اس ضمن میں کنکریٹ حکمت عملی کے لئے مشاورت کا انتظام کرے اور مدنظر رکھنا ہو گا کہ کسی بھی ریاست میں اکانومی کا سیکٹر اصلاح احوال کے زمرے میں اولین ترجیح ہی رہتا ہے۔
