صرف فیصلہ کافی نہیں

 خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے بڑے سرکاری ہسپتالوں پر مریضوں کا لوڈ کم کرنے کیلئے اضلاع کی سطح پر قائم علاج گاہوں کو فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس حوالے سے115 میڈیکل افسر کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے اس کے ساتھ دیگر عملہ بھی بھرتی ہوگا‘ اضلاع کی سطح پر51ماہر ڈاکٹر بھی بھرتی ہونگے‘ خیبرپختونخوا حکومت کا فیصلہ درپیش ضروریات کے تناظر میں قابل اطمینان اور مسائل کے حوالے سے احساس و ادراک کا عکاس ہے اس کے ساتھ اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اس فیصلے کاثمر آور ثابت ہونا عملی اقدامات سے جڑا ہوا ہے بصورت دیگریہ صرف ملازمین کی مزید بھرتی کیلئے ایکسر سائز ہی رہے گی‘ فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے ذمہ دار دفاتر کو یہ بھی مدنظرر کھنا ہوگا کہ اس طرح کے فیصلے اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ ہوچکے ہیں جن کے نتائج کبھی بھی سامنے نہیں آئے ایک فیصلہ تو صوبائی دارالحکومت کے اطراف میں سٹیلائٹ طبی مراکز کے قیام کا بھی تھا تاکہ شہر کی بڑی علاج گاہوں پر لوڈ کم ہی رہے یہ کتنا موثر اور ثمرآور فیصلہ تھا اور اس پر کتنے اضافی اخراجات ہوئے اس سب کو دیکھنا بھی ضروری ہے خیبرپختونخوا میں عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا یکے بعد دیگرے ہر حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہی رہاہے‘ اس حوالے سے اقدامات اٹھائے بھی جاتے رہے ہیں بھاری فنڈز بھی ریلیز ہوتے رہے ہیں جبکہ صحت کارڈ کی صورت ایک بڑا پراجیکٹ بھی دیاگیا ہے‘ اس سب کے باوجود عام شہری کو سرکاری اداروں میں علاج کی سہولیات معیار کے مطابق نہ ملنے کا گلہ ہی رہتا ہے جس پر مریضوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ پرائیویٹ اداروں میں بھاری ادائیگی پر علاج کیلئے جاتی ہے‘ مریضوں کو درپیش مشکلات کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ علاج گاہوں کے اندر رش بتایا جاتا ہے‘مہیا انفراسٹرکچر اور مین پاور کے حوالے سے رش یقینا مسئلہ ہے جس کا حل اضلاع کی سطح پر سہولیات فراہم کرکے نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اسکے ساتھ قابل توجہ یہ بھی ہے کہ مہیا وسائل اور افرادی قوت کیساتھ اگر کڑی نگرانی کا انتظام ہو جائے اور ذمہ دار حکام دفاتر سے نکل کر موقع پر جائیں تو عوامی مشکلات کا گراف کم ہو سکتا ہے‘ضروری یہ بھی ہے کہ مہیا وسائل میں تمام مشینری آپریشنل ہو‘ ساتھ میں یہ بھی ضروری ہے کہ تمام لیبارٹری ٹیسٹ اور ریڈیالوجی کا کام روزانہ بروقت مکمل کرنے کا انتظام کیا جائے‘اس مقصد کیلئے درکار سہولیات بھی فراہم کی جائیں تاکہ طبی ادارے بھی آسانی سے خدمات فراہم کر سکیں۔