وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ روز ہونے والے اہم اجلاس میں وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈاپور نے صوبے کا کیس پیش کردیا ہے‘ اس اہم اجلاس سے متعلق جاری تفصیلات کے مطابق وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے‘ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت ہونے والی اہم نشست میں وفاقی وزیر خزانہ اور آبی وسائل کے وفاقی وزیر محمد معین وٹو بھی شریک ہوئے صوبے کا کیس اس اہم بیٹھک میں بھرپور انداز سے پیش کیا گیا اور وفاق کی جانب سے بھی اس کی مخالفت نہیں ہوئی بلکہ اصولی طورپر اتفاق کیا گیا‘ وطن عزیز کو اس وقت اکانومی کے سیکٹر میں سخت مشکلات کا سامنا ہے اور ان مشکلات ہی میں اگلے مالی سال کیلئے بجٹ کی تیاری کا کام بھی جاری ہے‘ دوسری جانب خیبرپختونخوا کا جغرافیہ اور یہاں درپیش حالات کے ساتھ اس صوبے پر لاکھوں افغان مہاجرین کی طویل میزبانی خصوصی توجہ کی متقاضی ہے صوبے کا حصہ بننے والے قبائلی اضلاع میں تعمیر و ترقی اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کام بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس کیلئے وفاق اور دوسرے صوبوں کی جانب سے تعاون کا عندیہ دیا گیا تھا اس سارے منظر نامے میں خیبرپختونخوا کے صرف پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں 1900 ارب روپے بقایا جات کی مد میں واجب الادا ہیں اس مد میں منافع کی ادائیگی کیلئے جو وقتی طریقہ کار طے کیا گیا تھا اس میں بھی77 ارب روپے وفاق نے ادا کرنے ہیں اس ضمن میں خصوصی اجلاس طلب کرنے کیلئے بھی وزیر اعلیٰ پہلے ہی مراسلہ ارسال کرچکے ہیں جہاں تک صوبے کا حصہ بننے والے قبائلی اضلاع کا تعلق ہے تو اس برسرزمین حقیقت کو فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے تمام مراحل میں پیش نظر رکھنا ہوگا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام کے ساتھ صوبے کی آبادی کامجموعی ملکی آبادی کے ساتھ تناسب 14.7 سے بڑھ کر17.7 فیصد ہوگیا ہے اسی کے ساتھ نیشنل فنانس کمیشن کے تحت وسائل کی تقسیم میں خیبرپختونخوا کا حصہ بڑھ چکا ہے این ایف سی کا حصہ ہو یا پن بجلی منافع کی مد میں بقایا جات‘ نقل مکانی کرنے والوں کی آبادکاری کامسئلہ ہو یا دیگر واجبات کا کیس‘ ان سب معاملات کو یکسو کرنے کیلئے وفاق اور صوبوں کے ذمہ دار دفاتر کے درمیان رابطہ اور اس حوالے سے ٹائم فریم کے اندر باقاعدہ رپورٹس ثمرآور نتائج کیلئے ضروری ہے بصورت دیگر بات صرف ایک آدھ اجلاس تک ہی رہ جائیگی۔
