خیبرپختو نخوا حکومت نے صوبے کے پہاڑی علاقوں میں تعمیرات سے متعلق معاملات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ورکنگ گروپ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری برائے منصوبہ بندی کو مراسلہ ارسال کردیا ہے اس ایکسرسائز کا مقصد بے ہنگم تعمیرات کے نتیجے میں ماحولیاتی مسائل کا تدارک ہے اس مراسلے کی روشنی میں دو ماہ میں پلان طلب کیا گیا ہے اس بحث میں پڑے بغیر کہ پلان کی تیاری اور عمل درآمد پر کتنا وقت لگے گا قابل اطمینان بات یہ ہے کہ صوبے کی سطح پر پہاڑی مقامات پر بے ہنگم تعمیرات سے پیدا ہونے والے مسائل کا ادراک و احساس موجود ہے اور خود وزیراعلیٰ اصلاح احوال کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں چاہئے تو یہ بھی تھا کہ متعلقہ سٹیک ہولڈر ادارے اب تک اپنے طورپر کوئی پیش رفت کر چکے ہوتے اور خود وزیر اعلیٰ کے دفتر سے مراسلہ جاری کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی وقت ابھی ہے کہ متعلقہ دفاتر پہاڑوں سے اتر کر میدانی علاقوں خصوصاً بڑے شہروں میں بے ہنگم تعمیرات اور اس حوالے سے قواعد و ضوابط کی پابندی نہ ہونے پر ہی حرکت میں آجائیں اس حوالے سے پہلے مرحلے پر کھلے دل کے ساتھ برسرزمین تلخ حقیقت کو دیکھا جائے کہ صوبے میں اربن پلاننگ کا باقاعدہ تکنیکی مہارت سے لیس کوئی انتظام ہی نہیں‘ماضی قریب میں فزیکل پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ کیساتھ صوبائی اربن ڈیویلپمنٹ بورڈ بھی کام کرتا تھا بعدازاں سرکاری اداروں میں تجربات کے جاری عمل میں اس محکمے کی جگہ ہاؤسنگ کا ادارہ قائم ہوا اور ترقیاتی ادارے بلدیات کے زیر انتظام ہوگئے اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ صوبے کے دیگر شہروں کے ساتھ صوبائی دارالحکومت کا انفراسٹرکچر پوری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہوا آبادی میں اضافے‘ بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کے ساتھ پشاور اطراف میں پھیلنا شروع ہوا‘ نئی آبادیاں ہر قاعدے قانون سے آزاد ہی رہیں یہاں نہ تو راستوں کا قواعد کے مطابق تعین ہوا نہ ہی سیوریج کا انتظام‘ میونسپل سروسز کا دائرہ وسیع ہوتا گیا جبکہ میونسپل اداروں کے وسائل اپنی جگہ رہے‘بلڈنگ کوڈ اپنی جگہ فائلوں میں بند رہا‘کیا ہی بہتر ہو کہ پہاڑی علاقوں میں تعمیرات کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کے ساتھ میدانی علاقوں میں بھی درپیش پریشان کن صورتحال کا فوری نوٹس لیا جائے اور اصلاح احوال کیلئے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔
