ارضی حقائق اور مکالمہ

وطن عزیز کو مختلف شعبوں میں درپیش چیلنج تلخ حقائق کے طورپر تسلیم کرنا ضروری ہے‘ ان حقائق سے چشم پوشی مسائل کی شدت میں اضافے کا ذریعہ ہی ثابت ہو سکتی ہے‘ اس وقت امن و امان کی صورتحال خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پریشان کن ہے‘ اکانومی کے شعبے میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے کھربوں روپے کی مقروض معیشت میں قرضے دینے والوں کی شرائط پر عمل درآمد مجبوری ہے‘ اس صورتحال کا سارا بوجھ ملک کے غریب شہریوں پر ہی ڈالا جا رہا ہے‘ اس منظر نامے میں کہ جب عام آدمی گرانی کے ہاتھوں سخت اذیت کا شکار ہے بنیادی شہری سہولیات کا فقدان خدمات کے نظام میں سقم بھی اسی شہری کے لئے مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے‘ اس ساری صورتحال میں باعث تشویش وہ اعداد و شمار بھی ہیں کہ جو قومی بجٹ سے پہلے گزشتہ روز خود وزارت خزانہ نے جاری کئے‘ ان اعداد و شمار میں صرف بجٹ خسارہ 7 ہزار 222 ارب روپے کا ہونے سے متعلق امکان ظاہر کیا جا رہا ہے‘ اس مشکلات کے گرداب میں پھنسے اقتصادی منظر نامے میں حاصل کئے قرضوں پر سود کی رقم 8 ہزار 106 ارب روپے بتائی جا رہی ہے‘ اب اس کے بعد ملک کا انتظام و انصرام کس طرح چلتا ہے اس سوال کا جواب بھی ماضی قریب کے حالات مدنظر رکھتے ہوئے یہی ہو سکتا ہے کہ مزید قرضے اٹھائے جائیں اور ان پر سود کا حجم بھی زیادہ ہوتا رہے‘ قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے مزید ٹیکس بھی عائد ہوتے رہیں اور اس طرح براہ راست و بالواسطہ سارا بوجھ عوام پر ہی گرایا جاتا رہے گا‘ درپیش چیلنج متقاضی ہیں کہ بعد از خرابی بسیار سہی اب اصلاح احوال کی جانب بڑھا جائے‘ اس ضمن میں فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے مراحل کے لئے وسیع مشاورت ناگزیر ہے‘ درپیش مشکلات سے نکلنے کے لئے دو چار اجلاسوں کا انعقاد کسی طور کافی قرار نہیں دیاجا سکتا‘ اس وقت ضرورت ایک ایسی مؤثر پلاننگ کی ہے کہ جس میں وسیع مشاورت شامل ہو‘اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد ملک میں حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونے پائے‘ اس مقصد کے لئے دیگر اقدامات کے ساتھ ضروری ہے کہ قومی قیادت کے درمیان مکالمے کا اہتمام ہو‘ اس مکالمے کے لئے سیاسی درجہ حرارت میں کمی اور ایک دوسرے کی بات کھلے دل کے ساتھ سنا جانا بھی ضروری ہے‘ امن کا قیام ہو یا معیشت کا مستحکم ہونا اس سب کے لئے دیگر عوامل کے ساتھ سیاسی استحکام کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔