اعداد و شمار کے تقاضے

وفاقی وزارت خزانہ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کئے ہیں‘ اس ضمن میں مہیا تفصیلات کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق مالی سال 2025-26ء کے میزانیہ میں بجٹ خسارے کا تخمینہ 7 ہزار 222 ارب روپے لگایا گیا ہے‘ قابل تشویش ہے کہ صرف حاصل کئے گئے قرضوں پر سود کا حجم 8 ہزار 106 ارب روپے لگایا گیا ہے‘ اس بھاری رقم کی ادائیگی کے بعد حکومت کے پاس متعدد دیگر اخراجات کے لئے کہ جن میں تنخواہیں بھی شامل ہیں صرف 2 ہزار 225 ارب روپے بچنے کا تخمینہ ہے‘ اس صورتحال میں اخراجات پورے کرنے کے لئے قرضوں پر ہی انحصار کرنا پڑ سکتا ہے‘ قرضوں کے حصول کے ساتھ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ بھی جڑا ہوا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا گراف مزید بڑھے گا‘ بجٹ کے حوالے سے پیچیدہ اعداد و شمار میں یہ اہم بات بھی شامل ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت اگلے مالی سال میں صوبوں کو 8ہزار 780 ارب روپے منتقل ہوں گے۔ وطن عزیز کی معیشت ایک طویل عرصے سے مشکلات کے گرداب میں ہے‘ ملک میں ایک کے بعد دوسرا قرضہ اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے‘ یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والی حکومتیں قرضوں کے حجم میں اضافہ ہی کرتی چلی آ رہی ہیں‘ قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عائد ہونے والے ٹیکسوں کی ادائیگی نے مہنگائی کی صورت عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘ اس منظر نامے کا ذمہ دار کون‘ کی بات ہو تو ایک دوسرے پر الزامات کا لامتناعی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ تشویشناک اعداد و شمار متقاضی اس بات کے ہیں کہ اس ضمن میں وقت بحث میں ضائع کرنے کی بجائے اصلاح احوال کی جانب بڑھا جائے‘ ملک کی اکانومی پر سے قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے ساتھ خود انحصاری کے لئے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے‘ برسوں کا بگاڑ دو چار اقدامات سے سنوار میں نہیں بدل سکتا اس کے لئے وسیع مشاورت تمام سٹیک ہولڈرز کی اس میں شمولیت اور مختصر‘ وسطی و طویل المدتی پالیسیوں کی تیاری ناگزیر ہے‘ ان پالیسیوں پر عمل درآمد محفوظ بنانا بھی ضروری ہے تاکہ یہ حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونے پائیں‘ اس ضمن میں اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں بصورت دیگر صورتحال مزید خراب ہوتی رہے گی۔