خارجہ حکمت عملی

وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز تہران میں ایران کے صدر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں درپیش صورتحال کے تناظر میں وطن عزیز کی حکمت عملی کے بعض اہم نکات پر بات کی ہے‘شہبازشریف نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان ایران کے پرامن نیو کلیئر پروگرام کی حمایت کرتاہے‘وزیراعظم شہبازشریف کا یہ بھی کہناہے کہ بھارت کیساتھ کشمیر‘ پانی‘ انسداد دہشتگردی اور تجارت پر بات چیت کیلئے تیار ہیں‘ شہبازشریف نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہا ہے کہ بھارت امن کی پیشکش قبول کرتا ہے تو ٹھیک ہے اور اگر دوبارہ جارحیت کی تو پھر ہم مادر وطن کا دفاع کرینگے‘ شہبازشریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتے ہیں‘ پاکستان غزہ کے لوگوں کیساتھ بھی یکجہتی کا اظہار کرتا ہے‘ پاکستان کی جانب سے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کی حمایت قابل اطمینان ہے اور اس پروگرام کی مخالفت امریکہ یا کوئی بھی اورملک کرے گا تو اس سے خود اس کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگے گا‘ جہاں تک کشمیر سے متعلق پاکستان کا موقف ہے تو اس میں بات صرف پاکستان کی نہیں‘ پاکستان مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے‘ اس حوالے سے عالمی ادارے کی قراردادوں کا بھارت کی جانب سے ایک طویل عرصے سے سردخانے میں ڈالے جانا عالمی ادارے کی ساکھ کو متاثر کر رہاہے جب عالمی برادری کی منظور کردہ قرارداد کی کوئی اہمیت ہی نہ رہے تو خود اس ادارے کی اہمیت کس طرح سے مسلمہ رہ سکتی ہے؟عالمی ادارہ خود اپنی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے عملی کردار ادا کرے تاکہ اس کی ساکھ اور غیر جانبداری متاثر نہ ہونے پائے‘ اسی طرح عالمی برادری اور خود کو بڑی طاقتیں قرار دینے والے ممالک کیلئے ضروری یہ بھی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں اس حوالے سے ہیومن رائٹس کیلئے بڑے بڑے دعوے کرنے والی تنظیموں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا عالمی برادری کیلئے ضروری یہ بھی ہے کہ وہ غزہ کی صورتحال پر بھی اب اپناموثر کردار اداکرے‘اس ضمن میں ایران کے صدر کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ غزہ کی صورتحال کو مغربی ممالک خاموش رہ کر انجوائے کر رہے ہیں اور یہ کہ یہ سب قابل مذمت ہے‘وقت کا تقاضہ ہے کہ عالمی برادری درپیش صورتحال کے تناظر میں غزہ کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کا نوٹس لے اور اس ضمن میں اپنا موثر کردار اداکرے۔