قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کرنے کی حکومتی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہیں تاہم، ہر سال کی طرح، کچھ تجزیہ کار معاشی بحران، غیر ملکی قرضوں اور سماجی شعبوں کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے دفاع کے لئے مختص بجٹ کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔ قدیم زمانے میں رومی سلطنت سپر پاور ہوا کرتی تھی اور یہ معاشی طور پر بہت مضبوط تھی لیکن آخر کار اسے زوال آیا کیونکہ گھٹتی ہوئی دفاعی صلاحیتوں کی وجہ سے وہ حالات کا مقابلہ نہ کر سکی۔ ایک زمانے میں بغداد علم و ہنر مندی کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور اسے تعلیم، تجارت، سائنس اور ثقافت کے عالمی مرکز کی حیثیت بھی حاصل تھی لیکن منگولوں نے اسے تباہ کر دیا۔ کاغذی کرنسی کو قدیم چین میں سونگ خاندان کے دور میں دنیا کی تاریخ میں پہلی بار متعارف کرایا گیا تاہم زوال غیر ملکی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے تھا۔ موجودہ اطالوی شہر وینس کو ماضی میں بحیرہ روم کی سب سے بڑی تجارتی طاقت سمجھا جاتا تھا لیکن اپنے کمزور دفاع کی وجہ سے اسے نپولین بوناپاٹ کی سربراہی میں فرانسیسی فوج نے اسے فتح کر لیا۔ مغلیہ دور میں ہندوستان کو اس کی ترقی اور خوشحالی کی وجہ سے عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا
تھا۔ دنیا کی کوئی بھی سلطنت مغل شہنشاہوں کی شان و شوکت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی لیکن پھر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مغلوں نے جدید دفاعی صلاحیتوں میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے اپنا تخت اور تاج کھو دیا۔ اسی طرح تین براعظموں پر صدیوں تک حکمرانی کرنے والی سلطنت عثمانیہ پہلی جنگ عظیم میں شکست کھا کر دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔جدید دور میں قومی سلامتی، وقار، جغرافیائی استحکام اور معاشی خوشحالی میں دفاعی شعبے کے کلیدی کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2024ءمیں عالمی دفاعی اخراجات کا مجموعی حجم 2.718 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے یہ سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق واحد سپر پاور امریکہ نے جنگی اخراجات کے لئے 997 ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی جبکہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت چین کے دفاعی اخراجات 314 ارب ڈالر بتائے گئے جو تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ روس نے یوکرین کے ساتھ جاری فوجی تنازع کی وجہ سے اپنا دفاعی بجٹ بڑھا کر 149 ارب ڈالر کر دیا ہے۔بھارت کا دفاعی بجٹ جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے زیادہ ہے اور اس کا دفاعی بجٹ 46.5 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ صرف 10.2 ارب ڈالر تک محدود ہے جو عالمی دفاعی اخراجات کا تقریباً 0.4 فیصد ہے۔ دفاعی بجٹ میں پاکستان سے زیادہ رقم مختص کرنے والے نمایاں ممالک میں آسٹریلیا، جنوبی کوریا، جرمنی، جاپان، سعودی عرب، فرانس اور برطانیہ شامل ہیں۔ نیٹو ممالک اپنے جی ڈی پی کا کم از کم 2 فیصد دفاع پر خرچ کرتے ہیں تاہم مذکورہ بالا ممالک کا دعویٰ ہے کہ دفاعی اخراجات میں اضافے کا مقصد جنگ نہیں بلکہ جنگ کی روک تھام اور دفاع ہے قدیم دور سے لے کر جدید دور تک کسی بھی خودمختار ملک کی بقاءکا دارومدار اس کی مضبوط دفاعی صلاحیتوں پر ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک
کی فوجی صلاحیت عالمی اور علاقائی سطح پر اس کے اثر و رسوخ کا تعین کرتی ہے۔ مضبوط دفاعی طاقت رکھنے والے عالمی رہنما¶ں کے نکتہ¿ نظر کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے اور وہ عالمی اتحادوں، امن مشنوں اور انسانی ہمدردی کی مہمات میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اسی طرح دفاعی شعبے کو مضبوط بنانے سے بھی ملکی معیشت ترقی کرتی ہے اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی ہے۔ جو لوگ پاکستان کے دفاعی بجٹ پر تنقید کرتے ہیں وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں کہ پاکستان کو پہلے دن سے ہی سرحدی کشیدگی اور سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے۔ اس تقاضے کو سمجھنا چاہئے کہ آج ہماری مضبوط فوجی طاقت کا خوف ہمارے ہمسایہ ملک کو مکمل جنگ مسلط کرنے سے روک رہا ہے لہٰذا ہمیں جدید ہتھیاروں، جنگی جہازوں، جوہری صلاحیتوں اور میزائل دفاعی نظام میں سرمایہ کاری جاری رکھنی چاہئے۔ اپنی بقاءکے لئے ڈیٹرنس برقرار رکھنے کے لئے ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ سائبر کمانڈز، خلائی افواج اور مصنوعی ذہانت جیسے جنگ کے جدید میدانوں اُور محاذوں کے لئے بھی مختص کیا جانا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)