پشاور جرگہ کے اہم فیصلے

خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور میں گزشتہ روز ہونے والا جرگہ زیر بحث آنے والے نکات اور فیصلوں کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی قرار دیا جا سکتا ہے‘ امن و امان کے حوالے سے منعقدہ جرگہ میں دیگر اہم باتوں کے ساتھ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں خیبر پختونخوا کے حصے پر بھی بات ہوئی۔ خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے اس مقصد کے لئے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا‘ اجلاس میں اس بات کا عندیہ بھی دیا گیا کہ 15سال کے بعد اب این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے پیش کردہ دیگر مطالبات پر بھی کمیٹی تشکیل دینے کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مسائل کا حل مل بیٹھ کر نکالیں گے۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کی دھمکیوں کے توڑ کے لئے صوبوں کو دعوت دیں گے‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب ہمیں پانی کے ذخائر سے متعلق بھی فیصلہ کرنا ہو گا۔ جرگے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور نے وفاق سے صوبے کے واجبات ادا کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی این ایف سی میں صوبے کا حصہ بننے والے اضلاع کا شیئر اور آئی ڈی پیز کے معاوضے کی ادائیگی کا کہا‘ وزیراعلیٰ نے بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات اور ٹوبیکو ٹیکس کا حصہ دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ پشاور جرگہ کا انعقاد اپنی جگہ قابل اطمینان فیصلہ ہے کہ جس میں ایک دوسرے کا مؤقف سننے کا موقع مل سکا‘ وطن عزیز کی معیشت ایک طویل عرصے سے مشکلات کے گرداب میں ہے‘ ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے اور بھاری رقم ہر سال قرضوں پر لگنے والے سود کی ادائیگی میں صرف ہوتی ہے‘ اس صورتحال میں مجموعی طور پر ملک کا ہر شعبہ متاثر ہی ہوتا ہے جبکہ تعمیر و ترقی کے سفر کی رفتار بھی برقرار نہیں رہ پاتی‘ اس وقت جبکہ اگلے مالی سال کے لئے قومی بجٹ کی تیاری کا کام زور و شور سے جاری ہے‘ وفاقی حکومت کی جانب سے متعدد ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز جاری نہ کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے حالات دوسرے صوبوں سے قدرے مختلف ہیں‘ صوبے کا جغرافیہ درپیش صورتحال لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی‘ امن و امان اور صوبے کا حصہ بننے والے نئے اضلاع میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی ضرورت جیسے نکات متقاضی ہیں کہ اس صوبے کی مالی مشکلات کو کم کیا جائے‘ اس ضمن میں وزیراعظم کی جانب سے کمیٹی کی تشکیل قابل اطمینان ضرور ہے تاہم اس کا ثمرآور ثابت ہونا عملی نتائج سے جڑا ہے جن پر توجہ ناگزیر ہے۔