مالی سال2025-26ء کیلئے قومی بجٹ 10جون کو پیش کیا جا رہا ہے اس وقت بجٹ کی تیاری کا کام زور و شور سے جاری ہے ملکی معیشت کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں بجٹ کے حوالے سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی شرائط پر عمل بھی مجبوری ہے اس مقصد کیلئے آئی ایم ایف کے ذمہ دار حکام کیساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے ذرائع ابلاغ پر آنے والے بجٹ سے متعلق خبریں توقعات اور خدشات پر مشتمل ہیں تادم تحریر رپورٹس کے مطابق آنے والے بجٹ میں پٹرول سمیت ہر قسم کی نقد خریداری پر اضافی رقم وصول کئے جانے کی تجویز بھی زیر غور ہے‘ اس مقصد کیلئے پٹرول پمپس پر ڈیجیٹل ادائیگی کیلئے انتظامات کئے جارہے ہیں بجٹ تجاویز پر مشتمل ایک رپورٹ کے مطابق اگلے مالی سال میں نان فائلرز کی جانب سے50ہزار روپے سے زائد کی کیش نکلوانے پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز بھی ہے‘ اس حوالے سے ودہولڈنگ ٹیکس0.6 سے بڑھ کر1.2 فیصد ہونے کی توقع ہے‘دریں اثناء منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہناہے کہ آنے والے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈ رواں مالی سال کے مقابلے میں 100ارب روپے کم ہے اس سب کیساتھ تنخواہ دار طبقے کیلئے بھی متعدد تجاویز سے متعلق رپورٹس تواتر کیساتھ آرہی ہیں وطن عزیز میں معیشت کا شعبہ طویل عرصے سے سخت مشکلات کاشکار ہے اکانومی کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہے قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتاچلا جارہا ہے بھاری رقم ہر سال سود کی مد میں ادا ہو جاتی ہے ہر آنے والی حکومت صورتحال کی ذمہ داری اپنے سے پہلے کے حکمرانوں پر ڈال دیتی ہے اس لئے صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں کی بحث طویل اور بے معنی ہو کر ہی رہ جاتی ہے اس بحث میں الجھے بغیر اور ذمہ دار کا تعین کرنے میں وقت ضائع کئے بغیر ضروری ہے کہ فوری طورپر اصلاح احوال کی جانب بڑھا جائے‘ اس مقصد کیلئے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کو محفوظ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں وسیع مشاورت شامل ہو‘ ضروری یہ بھی ہے کہ درپیش منظرنامے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک کے غریب شہریوں کو ریلیف دیا جائے‘ اس ریلیف کیلئے اقدامات صرف اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتے ہیں جب پوری پلاننگ برسرزمین حقائق کو مدنظررکھ کر کی جائے اور عملی نتائج کو ہر سطح پر مانیٹر کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
