وطن عزیز میں سیاست کے میدان کی گرما گرمی طویل عرصے سے پورے منظرنامے کو گرمائے ہوئے ہے سیاسی بیانات کی حدت و شدت گرم اور سرد موسموں میں بھی بڑھتی ہی دکھائی دیتی ہے‘ دوسری جانب ملک کو مختلف شعبوں میں چیلنجوں کا سامنا بھی ہے امن وامان کی صورتحال خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خراب ہی رہتی ہے آئے روز دہشت گردی کے واقعات ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کا اہم حصہ ہوتے ہیں ملک میں اقتصادی سیکٹر مشکلات کے گرداب میں ہے اکانومی کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہے اور مزید قرضے اٹھانے کا سلسلہ ابھی رکا بھی نہیں ہے ہر سال ایک بڑی رقم صرف سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتی ہے قرضے دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد اس حد تک مجبوری بن چکا ہے کہ اب قومی بجٹ کی تیاری میں بھی انٹرنیشنل مانٹیری فنڈ کے ساتھ مشاورت اور منظوری لازمی ہوچکی ہے‘ قرضے دینے والوں کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے ٹیکس عائد بھی ہوتے ہیں اور پہلے سے عائد ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل بھی‘ جو اکثر اضافے کی صورت ہی ہوتا ہے آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہوتاہے پٹرولیم لیوی مالیاتی اداروں کی شرائط کے طور پر عائد ہو رہی ہے جبکہ اس میں اضافہ بھی ان اداروں کے کہنے پر ہی ہوتاہے ہمارے یوٹیلٹی بل بھی قرضے دینے والوں کی شرائط پر بنائے جاتے ہیں جو نہ صرف عام صارف کیلئے بوجھ ہوتے ہیں بلکہ ان کے بڑھتے حجم سے مجموعی پیداواری لاگت بھی ساتھ ہی بڑھتی چلی جاتی ہے جس کا بوجھ بھی غریب عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتاہے‘ وطن عزیز کو درپیش چیلنجوں میں توانائی بحران بھی پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ بھاری یوٹیلٹی بل اداکرنے والے صارفین بجلی اور گیس کی طویل لوڈشیڈنگ بھی برداشت کرنے پر مجبور ہیں بنیادی شہری سہولیات کا فقدان اپنی جگہ ہے دیگر میونسپل سروسز اپنی جگہ‘ آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں رہائشی سہولیات کا فقدان کرایوں میں اضافے کا باعث بن کر غریب شہریوں کیلئے اذیت ناک ہوچکا ہے علاج کی سہولتوں کے معیار اور دائرہ کار کا اندازہ آبادی کے بڑے حصے کے نجی علاج گاہوں سے علاج کی شرح دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے اسی طرح نجی تعلیمی اداروں پر بھی رش ہی دکھائی دیتا ہے میدان سیاست کی گرما گرمی جمہوری نظام کا حصہ ہے اسے بھی حد اعتدال میں رکھنے کے ساتھ ضروری ہے کہ درپیش ارضی حقائق کی روشنی میں اصلاح احوال کی جانب بڑھتے ہوئے باہمی مشاورت یقینی بنائی جائے۔
