خون پر دنیا بھر میں تحقیق کی جارہی ہے اور مصنوعی حیاتیات کے ذریعے بھی اس کی افادیت بڑھانے پر کام ہورہا ہے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ سائنسدانوں نے خون کے سرخ خلیات (آربی سی) کو مصنوعی طور پر بنایا ہے جن میں دیگر بہت سے خواص شامل کئے گئے ہیں۔ اس اختراع کے ذریعے نہ صرف خون کے سرخ خلیات کےذریعے آکسیجن کو بدن کے کسی بھی حصے میں بھیجا جاسکتا ہے، وہیں خاص ادویہ بھی بھیجی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ خلیات زہریلے اجزا کی شناخت کےعلاوہ دیگر بہت سے کام بھی کرسکیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ خون کے سرخ خلیات کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ پھیپھڑوں میں آنے والی آکسیجن جسم کے تمام خلیات اور بافتوں (ٹشوز) تک پہنچاتے ہیں۔ اس میں ہیموگلوبِن کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جس میں پروٹین اور فولاد آکسیجن سالمات (مالیکیول) سے جڑا ہوتا ہے۔ طب کی رو سے آر بی سی میں میں بہت سے خود حفاظتی فیچرز بھی ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ وہ سکڑتے اور پھیلتے ہوئے خون کی بہت باریک نلیوں میں سے گزرجاتے ہیں، اپنا کام کرتے ہیں اور ہمارے جسم میں خاصے وقت تک موجود رہتے ہیں۔
اگرچہ اس سے قبل بھی سرخ خلیات بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن ان کے تمام خواص کی نقل میں بڑی کامیابی نہ مل سکی۔ لیکن اب یونیورسٹی آف نیو میکسکو، سینڈیا نیشنل لیبارٹریز اور ساو¿تھ چائنا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نے خون کے ایسے مصنوعی خلیات بنائے ہیں جو اصل خلیات کے تمام کام کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر امور بھی انجام دے سکتے ہیں۔
اس کے لیے ماہرین نے پہلے اصل خلیات کا مطالعہ کیا جو انسانی جسم سے لیے گئے تھے۔ سب سے پہلے خلیات پر سیلیکا کی بہت باریک پرت چڑھائی گئی، اس کے بعد ایسے پالیمر کی تہہ لگائی گئی جس میں مثبت (پازیٹو) اور منفی(نگیٹو) دونوں طرح کے چارج موجود تھے۔ اس کے بعد سلیکا کو ہٹادیا گیا اور تمام خلیات کو آر بی سی کے اوپر پائی جانے والی قدرتی پرت میں ڈھانپا گیا۔
اس طرح یکساں چارج، پروٹین،جسامت اور خواص والے بہت سارے خون کے خلیات تیار ہوئے۔ چوہوں پر تجربات میں یہ بہترین ثابت ہوئے اورقدرتی طور پر سکڑتے اور سمٹتے رہے اور باریک باریک نالیوں میں سے بھی گزرگئے۔ چوہوں کے جسم میں یہ 48 گھنٹے تک گھومتے رہے اور اس ضمن میں کوئی ضمنی اثرات سامنے نہیں آئے۔
اگلے ٹیسٹ میں خلیات میں سرطان کی ادویہ، ہیموگلوبن، زہریلے مادوں کے سینسر اور مقناطیسی نینوذرات بھی کامیابی سے شامل ہوئے۔ اس طرح ایک خلیہ کئی کام کرسکتا ہے یعنی وہ دوا پہنچاسکتا ہے، خطرناک مرکبات کی شناخت کرسکتا ہے اور دیگر امورانجام دے سکتا ہے۔
تاہم اگلے مراحل میں انہیں انسانوں پر بھی آزمایا جائے گا لیکن اس کی منزل ابھی بہت دور ہے۔