دنیا بھر میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اپنے شہریوں کو بلا امتیاز بہترین سفری سہولیات کیلئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام آرام دہ اور بہترین سہولیات کے ساتھ کم از کم وقت پر منزل مقصود پر پہنچ سکیں۔بلٹ ٹرین اس کی ایک مثال ہے جس کی رفتار 500کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر کبھی ہمارے ملک میں یہ ٹرین چل سکی تو کراچی سے پشاور کا سفر صرف تین سے چار گھنٹے کا ہوگا جوکہ ہمارے لئے ایک خواب ہے‘محکمہ ریلوے پاکستان کا ایک پرانا ادارہ ہے ملک کے دیگر اداروں اور محکمہ ریلوے میں فرق صرف اتنا ہے کہ دیگر ادارے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں پر پورا اترنے کیلئے اپنے آپ کو نت نئی اور جدید سہولیات میں ڈھالتے رہے اور جدت پیدا کرتے رہے لیکن پاکستان ریلوے نے شاید اپنے آپ کو ملک کا ایک پرانا ادارہ تسلیم کروانے اور اس اعزاز کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی حالت نہیں بدلی اور آج بھی انہی خطوط پر استوار ہے جس سے اس محکمے کی شروعات ہوئی تھی‘ تب آج سے کہیں گنا بہتر تھا ریل گاڑی وقت پر اسٹیشن پر پہنچتی تھی اور مقررہ وقت پر منزل کی جانب چلتی تھی، صفائی کے اعلیٰ معیار کے علاوہ دیگر سفری سہولیات کی بناء پر عام مسافر ریل کے سفر سے کافی مطمئن تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ریلوے کی یہ ساری صفات آج کہنے کو ایک کہانی بن گئی ہیں کیونکہ پاکستان میں تو آج کسی کی سُستی اور کاہلی کی مثال دینی ہوتو ”ریل گاڑی“ کہہ کر اُسے چڑایا جاتا ہے کیونکہ ہماری یاداشت کے مطابق کبھی بھی ریل گاڑی وقت پر نہیں پہنچ پائی ہے عوام کو تو چھوڑئیے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ وزراء اور اعلیٰ افسران کیلئے بھی ریل گاڑی ٹائم پر نہیں پہنچتی۔ اس مشاہدے سے خوشی بھی ہوئی کہ محکمہ ریلوے عوام اور وزیر و سرکار میں کوئی فرق نہیں کرتا اور اپنی عادت پر کسی قسم کی کمٹمنٹ کرنا پسند نہیں کرتا۔ ریلوے میں کچھ اصلاحات ضرور متعارف کروائی گئیں اور اس محکمے کو دور جدید کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا خواب دکھلایا جو آج تک پورا نہ ہوسکا بلکہ پاکستان ریلوے گزشتہ کئی سال سے خسارے میں جا رہا ہے۔محکمہ ریلوے کے آغاز اور اثاثہ جات کی بات کی جائے تو وہ کچھ اس طرح ہے کہ اس 152 سالہ پرانے اور قدیم ادارے کا آغاز 13 مئی 1861 ء میں ہوا تھا اور قیام پاکستان کے وقت اس کا کل ایریا 11088 کلو میٹر لائن پرمشتمل تھا جس میں 3043 کلو میٹر لائن بھارت کے پاس چلی گئی اور 8045 کلو میٹر لائن پاکستان کے پاس رہ گئی مگر گزشتہ73 سالوں میں اس ایریا میں 218 کلو میٹر لائن کا اضافہ ہوا تاہم 985 کلو میٹر لائن بند کر دی گئی قیام پاکستان کے وقت اس کے 907 ریلوے اسٹیشن اور 78 ہالٹس تھے جو اس وقت 781 اسٹیشنوں اور 26 ہالٹس تک محدود ہیں۔عمر رسیدہ اثاثوں کو مناسب وقت پر تبدیل نہ کرنے اور ان کی اصلاح نہ کرنے کے عمل سے ریلوے ایک سفید ہاتھی کے روپ میں ڈھل چکا ہے،۔
پٹڑی کی خستہ حالت کی وجہ سے ٹرینوں کی رفتار کم کر دی گئی ہے اور ریلوے کے بیشتر شعبوں میں ہنر مند ملازمین کی تعداد انتہائی کم ہوگئی ہے کچھ عرصہ قبل ریلوے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 35 ہزار تھی لیکن اب تقریباً90 ہزارکے لگ بھگ ملازمین ریلوے کے ساتھ وابستہ ہیں اس کے علاوہ لاتعداد مسائل ہیں جو ریلوے کے قومی ادارے کو آکٹوپس کی طرح اپنے چنگل میں پھنسائے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں آج کے ترقی یافتہ دور میں آمد ور فت کیلئے بہت سے ذرائع دستیاب ہیں تاہم بات جب آرام، سہولت اور کفایت شعاری کی ہو تو پھرموزوں ترین وسیلہ ریلوے ہی دکھائی دیتا ہے جس کی مثال راقم خود اپنے دورہ بھارت کے دوران دیکھ چکا ہے بھارت میں تقریباً ہر آدمی ریلوے کے ذریعے ہی سفر کرتا ہے اور بھارت کا محکمہ ریلوے بھی عوامی رسپانس کی قدر کرتا ہے اور ان کو سہولیات اور اپنی طرف راغب کرنے کیلئے ہر دم سرگرمِ عمل رہتا ہے علاوہ ازیں بھارت میں راقم نے ایک اور قابل غور بات نوٹ کی اور وہ یہ تھی کہ لوگوں کا ٹرین کے ذریعے سیر و تفریح کرنا وہاں پر تاریخی مقامات میں سے خصوصی ریلوے ٹریک گزارے گئے ہیں جن کی سیر کیلئے نہ صرف وہاں کے شہری بلکہ دیگر ملکوں سے آئے ہوئے سیاح بھی ان تاریخی مقامات کی بذریعہ ٹرین سیر و تفریح کرتے ہیں جس سے ملک کوقیمتی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ذمہ داران میں اس بارے میں کوئی سوچ ہی نہیں پائی جاتی کیونکہ ہمارے ہاں نہایت خوبصورت وادی لنڈی کوتل موجود ہے اورخوش قسمتی سے وہاں پر انگریزوں کے زمانے کا بنا ہوا تاریخی ریلوے ٹریک بھی تھا جو کہ ذمہ داران کی عدم دلچسپی اور عدم توجہی کے باعث ختم ہوکر رہ گیا ہے حالانکہ یہ صدیوں پرانی تاریخ کا حامل ”خیبر پاس“ سیاحوں کی آمد کا آج بھی منتظر ہے تاریخی اہمیت کی یہ سیرگاہ اپنی افادیت و اہمیت آہستہ آہستہ کھو رہی ہے اگر لنڈی کوتل ریلوے ٹریک کی دوبارہ سے مرمت کی جائے اور اس کے لئے ایک خصوصی سفاری ٹرین چلائی جائے تو نہ صرف ریونیواور زرمبادلہ حاصل کرنے کا نیا ذریعہ محکمہ ریلوے کو مل سکتا ہے بلکہ عوام کو بھی سیر وتفریح کا ایک نیا موقع ہاتھ آسکتا ہے۔دنیا بھر میں سفر کیلئے ایک فارمولے پر عمل کیا جا رہا ہے یعنی بین الاقوامی سفر کیلئے فضائی سفراور اندرون شہر سفر کیلئے بس اور ٹیکسی وغیرہ پر انحصارکیاجاتا ہے تاہم اندرون ملک مختلف شہروں کے مابین سفر کیلئے ریلوے ہمیشہ اولین ترجیح رہی ہے اور آج بھی اس کی یہ اہمیت و افادیت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ریلوے کی اہمیت محض سفر کا بہترین ذریعہ ہونے کا باعث ہی نہیں ہے بلکہ کاروباری و معاشی سرگرمیوں کو فروغ اور سہولت دینے میں بھی اس ادارے کا کردار بے حد اہم ہے۔ریل بجا طور پر عام آدمی کی سواری ہے جسے ہمارے ملک میں بالعموم طویل فاصلوں یعنی ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کیلئے اختیار کیا جاتا ہے لیکن دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں اس ذریعے کو بالکل مختصر مسافتوں یعنی ایک ہی شہر کے ایک سے دوسرے محلے تک جانے کیلئے بھی اور نہایت طویل فاصلوں ایک ملک سے دوسرے ملک تک کے سفر کیلئے بھی یکساں طور پر استعمال کیا جاتا ہے‘ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی یہ زمینی سفر کا سب سے سہل، آرام دہ، خوشگوار،محفوظ اور سستاذریعہ ہے‘ہوائی سفر کے مقابلے میں ریل کا سفر سیر و سیاحت کے شائقین کیلئے عموما ًزیادہ پُر کشش ہوتا ہے کیونکہ اس میں مشاہدے کے بھر پور مواقع حاصل ہوتے ہیں لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں ہمارے ہاں ریلوے کا محکمہ اگرچہ کامیابی سے چلتا رہا تاہم رفتہ رفتہ غفلت، نااہلی اور بدعنوانی کے سبب اس کی حالت خراب ہونے لگی۔جس سے نہ صرف پاکستان میں ریلوے میں سفر کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے بلکہ ریلوے کی آمدنی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جس کا اثر حکومتی خزانے پربلا واسطہ یا بالواسطہ پڑا جس کی وجہ سے مسافروں کو مکمل طور پر سہولتیں نہیں ملیں‘ گزشتہ برسوں میں غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ریلوے نے بہت نقصان اٹھایا اور سہولتیں ناپید ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کو بہت تقویت ملی ہمارے ہاں موجود ریلوے کے دریائی پل اکثر انگریزوں کے زمانے کے ہیں۔
اس کے علاوہ بہت سے پرانے انجن اور پرانی بوگیاں ہیں جو کہ تیز اور آرام دہ سفر کرنے کے قابل نہیں ہیں بعض جگہوں پر سنگل لائن ہے جس کی وجہ سے اکثر کراس پڑتے رہتے ہیں اوراکثر گاڑیاں تاخیر سے روانہ ہوتی ہیں‘سامان تجارت کی نقل و حمل کا حجم بڑھا کر بھی ریلوے کی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے،ملک کے دیگر شہروں کی طرح پشاور سے بھی تیز رفتار ٹرینیں چلائی جائیں کیونکہ ماضی میں پشاور سے کافی تیز رفتار ٹرینیں چلتی تھیں جو کہ اب بند ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام اور کاروباری طبقہ کو کافی مشکلات ہیں اور وہ احساس محرومی میں مبتلا ہیں‘لہٰذا انہیں دوبارہ بحال کیا جائے۔تاکہ محکمہ ریلوے کی انکم میں اضافہ ہو اور بیوروکریسی کی جیبوں میں اضافی رقم نہ جائے،محکمہ ریلوے ایڈوائزری کمیٹیوں کو دوبارہ فعال کرے اورمحکمہ ریلوے ماضی کی طرح ریلوے ایڈوائزری کمیٹیوں کا اجلاس وقتاً فوقتاً مستقلاً کروائے اور انہی اجلاسوں میں عوام اور ملک کے بہتر مفاد میں فیصلے کئے جائیں کیونکہ ریلوے کے تمام مسائل کوریلوے ایڈوائزری کمیٹی کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔لیکن ریلوے کی دانائی کا کون کون سا مسئلہ رویا جائے۔مارکیٹنگ کا شعبہ کارخانہ داروں کیساتھ قریبی رابطہ رکھے تاکہ ایکسپورٹ امپورٹ بڑھے اور کلیئرنس تھرو ریلوے ڈرائی پورٹس ہو،محکمہ ریلوے کسٹمرزکو مزید سہولیات فراہم کرے تاکہ مسافر بذریعہ روڈ سفر کرنے کی بجائے ٹرین میں سفر کرنے کو ترجیح دیں۔صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ وہ کراچی سے پشاور تک ریلوے کی اچھی سروس، یا کسی نان سٹاپ ٹرین سے محروم ہیں۔، اس کے علاوہ عرصہ دراز سے بند ٹریک نوشہرہ سے درگئی کو بھی مسافروں اور سامان کی ترسیل کیلئے استعمال کیا جائے کیونکہ اس سے مردان، دیر، باجوڑ، شانگلہ، سوات اور بونیر کے عوام مستفید ہوسکتے ہیں اور وہ بھی ریل کے آرام دہ سفر کوانجوائے کرسکتے ہیں اس کے علاوہ یہ ٹریک سیاحوں کیلئے بھی ایک پرکشش حیثیت رکھتی ہے‘اگر ان مفید تجاویز پر عمل کیا جائے تو نہ صرف محکمہ ریلوے کے ریونیو میں اضافہ ہو گا بلکہ ریلوے کی سروس میں بہتری آئے گی اور اس کی ساکھ مضبوط ہوگی‘ان تجاویز پر عمل کیا جائے تاکہ ہمارے ملک کا قیمتی اور پرانا محکمہ ریلوے نئے دور کے چیلنجوں کے مقابلے کیلئے ہمہ وقت تیار ہو جیسا کہ ہمسایہ ملک بھارت میں محکمہ ریلوے بڑی کامیابی سے چل رہا ہے اور انکم کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جبکہ اس اقدام سے پاکستان کی تجارت کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔
[email protected]