اسلام آباد۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو0.4 فیصد رہی، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے، صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے، خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے،کورونا سے 3000 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تاہم ہم نے ورثے میں ملنے والے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے ہم 3 ارب ڈالر تک لے آئے۔
اسٹیٹ بینک سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا،پوراسال کسی بھی ادارے کو کسی بھی حکومتی وزات کو ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی،ہم نے کوشش کی،اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات دیں، ان کیلئے سڑکیں، پْل، ہسپتال بنائیں اور جتنا ممکن ہو باہر کی چیزوں ور باہر کی دنیا پر انحصار کم کریں،کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا،کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہی تو منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے،احساس بجٹ دگنا کیا، شفاف طریقے سے پروگرام چل رہاہے،احساس پوگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں،اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں، آئی ایم ایف کے مطابق کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی، خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے،پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی،چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں اور انٹرپرائزز کے بجلی کے 3 ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی، زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمیں لائے،کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کی جائے گی، کوشش ہوگی نئے ٹیکس نہ لگائے جائیں۔
جمعرات کو یہاں اقتصادی مالی سروے 20-2019 پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گزشتہ حکومت کے آخری 2 سالوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16-17 سے گر کر 9 کے قریب پہنچ گئے تھے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر سستا رکھا گیا جس کے باعث درآمدات، برآمدات سے دگنی ہوگئیں اور ان تمام چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے پاس ڈالر ختم ہو گئے کہ ہم اپنی معیشت کو اچھے انداز میں چلا سکتے اور اس وقت میں ہمارے قرضے بڑھ کر 25ہزار ارب روپے ہو چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارے قرضے تقریباً 30ہزار ارب یا 30 کھرب روپے بن چکے تھے۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکاؤنٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم اپنی حکومت میں جو شرح نمو حاصل کررہے تھے وہ باہر سے قرض لے کر ملک کے اندر خرچ کررہے تھے تو ایسی صورتحال میں سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ ہم مزید وسائل یعنی ڈالرز کو متحرک کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور موخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام طے کیا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروباروں کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس، بجلی، قرضے یہ تمام چیزیں حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیے۔انہوں نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر ہم نے اپنے بیرونی طور پر معیشت کو درپیش خطرات سے نمٹا اور ورثے میں ملنے والے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے ہم 3 ارب ڈالر تک لے آئے۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ دوسری اہم چیز ہے کہ رواں سال اور پچھلے سال مجموعی طور پر کہ 5 ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کیے گئے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ تیسری بہت اہم چیز جو اس سال ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس سال بہت سخت انداز میں حکومت کو اخراجات کو کنٹرول کیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں ہوا ہو کہ ہم نے اس انداز میں کنٹرول کیا کہ پرائمری بیلنس قائم ہوگیا ہے یعنی ہمارے اخراجات، آمدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو۔مشیر خزانہ نے کہا کہ میں اس کے لیے فنانس سیکرٹری اور وزارت خزانہ کی پوری یم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور جنرل باجوہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نے فوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہم نے پوراسال کسی بھی ادارے کو کسی بھی حکومتی وزات کو ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی ٗ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو کمزور طبقے سے ہیں، جنہیں بھلادیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کم بجٹ کے باوجود ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریباً 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام آدمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ احساس پوگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غرب یا کم آمدنی والے لوگ ہیں، اسی جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152ارب روپے رکھے گئے۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پوگرام میں حکومت کی جانب سے 701 ارب روپے اور نجی شعبے سے منصوبے کے لیے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ دوسری جانب حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے، اس کو ہم نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے، ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، یہ سب چیزیں ہم نے کوروناوائرس کے آنے سے پہلے حاصل کیں، پھر کورونا وائرس آیا اور سا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی، اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک، امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم ہو گی، یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کی طلب کم ہوتی ہے تو ہماری برآمدات بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی او ایسا ہوا بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ملک میں اقصادی طور پر استحکام پیدا کیا تھا، اس کے نتیجے میں وہ بھی متاثر ہوا اور پاکستان کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا گیا کہ اس کی وجہ سے کوئی تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کوروناکے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہے کیونکہ مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اندازے لگارہے ہیں کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی تین فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ہماری برآمدات بھی متاثر ہوئیں، ترسیلات زر زیادہ متاثر نہیں ہوئی لیکن اب متاثر ہونے جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید تھی کے ایف بی آر کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو 4ہزار 700ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب 3ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے اس طرح ایف بی آر کوٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔انہوں نے کہا کہ قدرتی امر ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس مشکل وقت میں اپنی کاروباری برادری پھر ٹیکسز کی گرفت مضبوط کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان تک قرضے یا نقدرقم پہنچائیں تاکہ ملک میں جو کورونا کی وجہ سے سکڑتی ہوئی معیشت بن رہی ہے اس سے اچھی طرح نبردآزما ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے معیشت کو کورونا وائرس سے اچھے انداز میں بچانا ہے اور اپنے لوگوں کوبچانا ہے اور اس کیلئے دوطرح کے پیکج دیے گئے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ایک ہزار 240ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب اسٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں، ان کے ذریعے مختلف پروگراموں پر عملدرآمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصاً چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے لوگوں کو کمپنی کے پے رول پر برقرار رکھ سکیں۔مشیر خزانہ نے کہ ان پیکجز کے تحت ایک کروڑ 60لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان کا کروبار زندگی بھی چلے ور ان کی حالت معاشی طور پر بالکل تباہ نہ ہو۔