بچت سکیموں پر شرح منافع 8.10فیصد سے کم کر کے7.1فیصد کر دی گئی ہے جبکہ توقع یہ تھی کہ بچت سکیموں کی شرح منافع میں قدرے اضافہ کیا جائےگا تاکہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلے میں ان سفید پوش گھرانوں کو تھوڑا ریلیف مل سکے اور ان کا گزارہ نسبتاً آسانی سے ہوسکے کیونکہ عمومی طور پر قومی بچت کی سکیموں میں پیسے جمع کرانے والوں میں بوڑھے لوگ یا بیوہ خواتین شامل ہوتی ہیں جن کا کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہوتا اور نہ ان میں اتنی صلاحیت اور ہمت ہوتی ہے کہ وہ کسی کاروبار کا رسک لے سکیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس قسم کے بے بس اور بے کس لوگوں کےلئے حکومتیں خود سہارا فراہم کرتی ہیں لیکن ہمارے یہاں غالباً اسی مقصد کی خاطر بچت سکیمیں شروع کی جاتی ہیں مگر ان سکیموں سے بے وسیلہ لوگوں کا فائدہ بہت محدود ہوتا ہے‘ لیکن اگر شرح منافع میں مزید کمی کر دی جائے تو ان غریبوں کا گزارہ اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔دوسری طرف روپے کے مقابلے میں ڈالر ایک بار پھر 165روپے کی سطح پر جا پہنچا ایسی صورت میں حکومت کو چاہئے کہ وہ قومی بچت سکیموں کو پرکشش بنائے تاکہ ملک کا سفید پوش طبقہ مہنگائی کا دباﺅ برداشت کرسکے اور پرسکون زندگی گزارے‘ بہرحال قومی بچت کا ادارہ حکومت کےلئے عوام سے رقوم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
اس پر جو منافع ادا کیاجاتا ہے وہ افراط زر کے مقابلے میں کم ہے۔انگرےزدور مےںحکومت نے عوام کو بچت کی عادت ڈالنے کےلئے ڈاک خانوں میں سیونگ بینک کا شعبہ قائم کیا جہاں دو روپے سے حساب کھولا جا سکتا تھااور اس پر ایک اعشاریہ پانچ یا دو فیصد سالانہ سود ملا کرتا تھا‘پھر بھی کئی کروڑ کی رقم جمع ہوجاتی تھی‘قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں ملک کا سارا بےنکاری نظام ہی الٹ پلٹ ہوگیا‘ گنے چنے بینک اور محدود ڈاک خانے چھوٹے پیمانے پر یہ کاروبار کرتے رہے اس نظام کو منظم کرنے اور فروغ دینے کےلئے حکومت نے سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کا محکمہ بنایا جس نے وقتاً فوقتاً ناموں اور مدت کے لحاظ سے مختلف سکیموں کے اجراءکی ذمہ داری سنبھالی ان کو نیشنل سیونگز سکیم کہا جاتا ہے‘ ان میں رد و بدل ہوتا رہا بعض سکےموں کو ختم کر دیاگےا چند نئی سکیمیں شروع کی گئیں اسوقت ڈیفنس سیونگ سر ٹیفکیٹ‘ اکاﺅنٹ‘بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹ‘سیونگ اکاﺅنٹ‘ پنشنرز بینیفٹ اکاﺅنٹ اور انعامی بانڈز کی سکیمیں زیر عمل ہیں‘ ان میں کچھ عرصے قبل تک سب سے زیادہ مقبول سکیم ڈیفنس سرٹیفکیٹ کی تھی جس میں دس سال میں ابتدائی رقم تقریبا ًچوگنی ہو جایا کرتی ہے جبکہ سولہ فیصد کے قریب کمپاﺅنڈ منافع ملا کرتا تھا۔دوسری سکیموں پر بھی منافع کی شرح اچھی خاصی تھی ان سکیموں کو دھچکا اس وقت لگا جب ان کے منافعوں مےںباربار کمی کی جاتی رہی ۔ عوام قومی بچت کی سکیموں کے منافع میں اضافہ کا مطالبہ کر رہے تھے کالم نویسوں کی جانب سے بھی اس مطالبے کی تائید ہوتی رہی‘پچھلے ایک برس سے وطن عزیز میں مہنگائی کے طوفا ن نے غریب طبقے کو بے پناہ متاثر کیا ہے۔
ان کےلئے ان حالات میں روح اور جسم کے رشتے کو برقرار رکھنا ازحد دشوار ترین امر ہو کر رہ گیا ہے‘ قومی بچت سکیموں پر بات کی جائے تو یہ بزرگ پنشنرز‘بیواو¿ںاور غریبوں کےلئے کسی سہارے اور نعمت سے کم نہیں کہ وہ اپنی جمع پونجی سے سیونگ سرٹیفکیٹس حاصل کرتے ہیں۔جس کی بدولت انہیں ماہانا منافع کی رقم مل جاتی ہے‘جس سے ان کے اخراجات میں خاصی مدد ملتی ہے‘بزرگ مردوبیوہ خواتین اپنے بچوں خصوصاً بچیوں کی شادی کےلئے اس میں سے کچھ رقم ہر ماہ پس انداز کرتے رہتے ہیں‘اس لحاظ سے ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے غرباءکو سہارا دینے کےلئے حکومتی سطح پر بچت سکیموں میں منافع کی شرح میں ہر کچھ وقت بعد معقول اضافہ یقینی بنایا جائے‘تاکہ اس ہوشربا گرانی کے دور میں ان کی کچھ تو اشک شوئی ہو سکے‘تاہم اس کے برعکس اقدامات دیکھنے میں آتے ہیں اور بچت سکیموں پر منافع کی شرح میں کمی ہوتی رہتی ہے‘یہ غریب دشمن فیصلہ ہے‘جسے کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا‘وہ بھی ایسے حالات میں جب شرح سود میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے‘اس سے قومی بچت سکیموں کے حامل ان غریبوں کے مصائب میں مزید اضافہ ہو گاجو پہلے ہی بے پناہ مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور بڑی مشکل سے ان کا گزارہ ہوتا ہے۔