مغرب کاتعلیمی نظام

بچوں کے سکول سے آنےوالی ایجنڈا بک سے روزانہ کا ان کو ملا ہوا ہوم ورک معلوم ہوتا ہے‘ اس ایجنڈا بک میںایک دستخط ٹیچر کا اور دوسرا ماں کا ہوتاہے جبکہ وہ چیک کرلیں کہ آج بچے کو سکول سے ہوم ورک کیا ملا ہے‘ چونکہ ترقی یافتہ ملک ہے تو روزانہ ہی ایک پڑھنے کی بک لکھی ہوتی ہے جو کمپیوٹر پرجاکر کھولنا پڑتی ہے‘ اس کام کیلئے ماں کو صرف بچے کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ‘ آئی پیڈ دینا پڑتا ہے جس پر وہ خود ہی اپنا کوڈ لکھ کر اپنی مطلوبہ کتاب ڈھونڈ نکالتا ہے جب وہ کتاب بچہ پڑھتا ہے تو ٹیچر کا اس ویب سائٹ پر لنک موجود ہوتاہے ٹیچر کو پتہ لگ رہا ہوتا ہے کون کون سا بچہ پڑھائی کر رہا ہے جس کو رزلٹ میں باقاعدہ درج کیا جاتا ہے‘ایک کتاب بستے میںموجود ہوتی ہے جو نہ صرف معلوماتی ہوتی ہے بلکہ پڑھائی کی رفتار کو تیز تر کرنے کیلئے روزانہ دی جاتی ہے‘ اس کیلئے کلاس روم میں بے شمار کتابیں پڑی ہیں بچے اپنی کتاب روزانہ کی بنیاد پر واپس کرکے نئی کتاب اٹھالیتے ہیں‘اس کو الگ سے ایجنڈا میں تفصیل کےساتھ بچہ لکھتا ہے کہ یہ کتاب مجھے گھر میں پڑھانے میں کس نے مدد کی‘ عموماً اپنے پوتوں کو یہ کتابیں میں خود پڑھاتی ہوں‘ میں کیا پڑھاتی ہوں وہ خود ہی پڑھ کر مجھے سنا رہے ہوتے ہیں‘ میں نے صرف ’دادی‘ لکھنا ہوتا ہے اور اپنے سائن کرنا ہوتے ہیں‘ ہفتے میں ایک دفعہ ہر کلاس لائبریری جاتی ہے جہاں وہ اپنے اپنے معیار کی کتابیں خودمنتخب کرکے ایشو کرواتے ہیں‘ لائبریرین اس فرض کیلئے ان کے پاس موجود ہوتی ہے‘ اس تفریحی کتاب کو وہ پڑھ کر واپس کرتے ہیں تو اگلی کتاب ایشو کروا سکتے ہیں‘ ایک پلاسٹک کا بنا ہوا تھیلا اس مقصد کیلئے ان کو دیا جاتا ہے کہ کتاب بند کرکے لے جائیں‘ لائبریری کے نام سے آگاہی اور محبت نرسری سے سکھائی جاتی ہے۔

 ہر دو تین مہینے کے بعد والدین کےساتھ مختصر انٹرویو کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جس میں کلاس روم میں بچے کا رویہ اور ان کی ذہنی و تعلیمی استعداد کے بارے میں بات کی جاتی ہے‘ انٹرویو میں بلانے کیلئے مہینہ پہلے ایک فارم بھیج دیا جاتا ہے جس میں ہفتے کے سارے دن اور سارے اوقات دئیے جاتے ہیں‘ ماں یا باپ جس وقت بھی فارغ ہوں‘ فارم میں وہ وقت لکھ دیں‘ ان کا انٹرویو عین اسی وقت ہوگا‘ کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ سکول کی پسند کے مطابق آئے ہر شخص اپنی نوکری اور اپنی سہولت کےساتھ سکول ٹیچر سے ملنے آتا ہے‘ جہاں سکول ٹیچر بچے کے بارے میں تمام ضروری باتوں سے والدین کو آگاہ کرتی ہے اور ان کے ہر قسم کے سوالوں کے جواب دیتی ہے‘ ایک وقت میں صرف ایک ہی والدین کلاس روم میں موجود ہوتے ہےں‘ بچے کی موجودگی ازحد ضروری ہوتی ہے جہاں اس کا عملی کام‘ اس کا رویہ‘ پڑھائی کی طرف اس کی ذمہ داری‘ کلاس فیلوز کےساتھ اس کا تعاون‘ اس کی لیڈر شپ کوالٹی اور کیا کچھ وہ کر سکتا ہے تمام زیر بحث لایا جاتا ہے جیسے اس اہم ترین تکون میں یعنی بچہ‘ ٹیچر اور ماں میں بچے کی پڑھائی اور اس کی شخصیت سرفہرست ہوتی ہے‘ آپ یقین کریں میں کسی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہی یہ سب باتیں ماہر نفسیات کی اعلیٰ ترین کتب کے اندر میں پڑھ چکی ہوں اور آج اپنی آنکھوں سے ان ممالک میں دیکھ رہی ہوں اور یہ سرکاری سکول ہے‘ کوئی فیس نہیں ہے‘کاپی کتاب پنسل‘ایجنڈا بک کسی بھی قسم کی سٹیشنری کیلئے بھی ایک پیسہ نہیں لیا جاتا‘ بچہ اتنا اہم ہے کہ سکول بس گزرتے دیکھ کر کئی میٹر پہلے گاڑیاں بریک لگا دیتی ہیں‘ بس سے بچے اتر رہے ہوں تو سڑک پر گاڑیوں کا اژدھام رک جاتا ہے۔

 سکول بس سے اوور ٹیک کرنا ممنوع ہے‘ انٹرویو کیلئے کئی بار ٹیچرز سے ملے‘ کلاس روم کمپیوٹر‘ ٹیلی ویژن‘ آرٹ کے نمونوں سے سجا ہوا ہے‘ کئی چارٹوں سے دیواریں نفاست سے بھردی گئی ہیں جن پر نہایت خوبصورت لکھائیوں سے رنگارنگ جانوروں کے نام‘ سبزیوں‘ پھلوں کے نام‘ جگہوں اور سمندروں کے نام‘جزیروں اور ساحلوں کے نام لکھے ہوتے ہیں‘ بچے دیواروں کو دیکھ کر اپنے پراجیکٹ کے مطابق نام ڈھونڈتے ہیں اورکاپی پر لکھتے ہیں‘ یہ بہت چھوٹے بچوں کے کام کا ذکر کر رہی ہوں‘منفی20 ڈگری اور اس سے بھی زیادہ سردی میں بچے ایک آواز میں سکول کیلئے یوں اٹھتے ہیں کہ اگر وہ سکول نہیں گئے تو دنیا کا سب سے حسین دن کھو دیں گے کیونکہ سکول میں اتنی دلچسپیاں ہیں اور پڑھائی میں ایسا تنوع ہے کہ وہ دن کھو دینے کا تصور نہیں کر سکتے‘ سالانہ امتحان یا کسی بھی قسم کا ٹیسٹ امتحان کا کوئی رواج مڈل کلاس تک نہیں ہے کلاس ورک میں روزانہ کی کارکردگی کی بنیاد پر نتیجہ تیار کیاجاتا ہے جس کے تین صفحات میں اے بی سی ڈی ای کے عنوانات سے بچے کی کارکردگی ظاہر کی جاتی ہے اور شخصیت کے ایک ایک پہلو کو تفصیل سے لکھا جاتا ہے وہ اپنے کلاس فیلوز کیساتھ کتنا اچھا رویہ رکھتا ہے اور اس کا وجود کلاس روم کیلئے کتنا مفید ہے اس بات کو بھی بیان کیا جاتا ہے یہ تفصیل جان کر والدین کو لگتا ہے کہ شاید ہم تو اپنے بچوں کو جانتے ہی نہیں جتنی اس میں خوبیاں موجود ہیں اور حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے اگر کارکردگی خراب ہے تو اس پر بھی کھل کر بات کی جاتی ہے‘ مقصد صرف بچے کو اپنے ملک کیلئے انتہائی مفید اور معاشرے کےلئے اچھا انسان بنانا ہوتا ہے۔

 لائبریری میں گئی تو کتابیں دیکھ کر رشک آگیا‘ بچوں کے موضوعات پر ایک ایک کتاب ہے کہ لکھنے والوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہتا ہے ‘ تعلیم پر اتنا خرچ کرتے ہیںکہ آنےوالی نسلوں کے ہاتھوں میں بزرگ اپنا ملک تھماکر پیچھے ہٹتے جاتے ہیں‘ کالج ا ور یونیورسٹی کی تعلیم میں سختی ہے جس پیشے میں طالبعلم جاتا ہے پھر اس کا نچوڑ حاصل کرکے ہی نکلتا ہے‘ یہاں مغرب میں والدین فیسیں دیتے ہوئے حوصلہ افزائی نہیں کرتے‘ طالب علم پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں اور اپنے تعلیمی اخراجات خود پورے کرتے ہیں‘ حکومت قرضے دیتی ہے جو نوکری شروع ہوتے ہی قسطوں میں کٹنا شروع ہوجاتے ہیں‘پروفیسرز، اساتذہ اپنے اپنے پیشے سے سنجیدہ اور ایماندار ہیں‘ نکمے اور سازشی طالبعلموں کو یونیورسٹی کالج سے نکال دیا جاتاہے تاکہ اعلیٰ اداروں میں بہترین دماغ اور بہترین رویوں کے حامل لوگ ہی پہنچ سکیں‘ مغرب نے تعلیمی نظام کو اتنا آسان ‘خوبصورت‘ سچا اور معیاری بنا دیا ہے کہ آج ان کی تعمیر وترقی میں 80 فیصد کردار تعلیمی نظام کا ہے۔