یہ صورتحال بلاشبہ کسی عذاب سے کم نہیں کہ ملک بھر میں طویل لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ کئی شہروں میں4سے6گھنٹے اور دیہاتوں میں8سے12گھنٹے تک بجلی کی بندش اب معمول بن چکی ہے۔جس سے فیکٹریوں اور ملوں میں کام ٹھپ ہونے سے مزدوروںکو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔گردشی قرضے بڑھ جانے سے ایل این جی پر چلنے والے تین پاور پلانٹ بند ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں بدترین لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ منتخب حکومت کو بہت سے مسائل ورثے میں ملے ہیں ان میں سے سب بڑا مسئلہ جان لیوالوڈشیڈنگ ہے۔گویہ جان لیوا لوڈ شیڈنگ پی ٹی آئی کو ورثے میں ملی ہے لیکن اب اس پر قابو پاکر عوام کو سہولیات فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔واضح رہے کہ ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال 3ہزار 600میگاواٹ ہو گیا ہے۔اس وقت بجلی کی طلب 25ہزار میگاواٹ ہے ،جبکہ پیداوار 21ہزار 40میگاواٹ ہے۔ وفاقی کابینہ نے جس لوڈ مینجمنٹ پلان کی منظوری دی تھی اس پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے جملہ اقدامات کیے جائیں۔اس حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ موجودہ دور میں ترقی اور خوشحالی کے ضمن میں جو معیارات مقرر کیے گئے ہیں ان میں بجلی اور پانی کی فراہمی نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ عوام کی طرف سے بھی مسلسل صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے لیکن ذمہ داران اور ارباب بست وکشاد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
ستم بالائے ستم ان مسائل کے حل،خاص طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے ضمن میں کی گئی منصوبہ بندی کرپشن کے الزامات کی زد میں آکرعوام کے اعتماد سے محروم ہوگئی۔اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو پانی اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے ٹھوس اور شفاف اقدامات کیے جائیں۔وطن عزیز کے عوام گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے بجلی کے بحران اور اُس کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو جھیل رہے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار کھپت کے متوازی ہر گز نہیں۔پیداوار خاصی کم ہے اور استعمال زیادہ،جب ملکی ضروریات کے حساب سے بجلی کشیدہی نہیں کی جارہی تو پھر لوڈشیڈنگ تو لازمی سی بات ہے۔دوسری طرف بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں،اُسے کھپت کے متوازی لایا جائے،سستے ذرائع بروئے کار لائے جائیں۔ہوا،پانی اور شمسی توانائی سے بجلی کشیدکی جائے۔ شہروں اور دیہات میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔پشاور بھر میں ہر گھنٹے دو گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈ نگ کی خبریں عام ہیں۔ملک کے دیگر شہروں میں بھی لوڈ شیڈنگ کا یہی حال ہے ،پوارا پورا دن لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔
دن اور رات کے دیگر اوقات میں اضافی لوڈ شیڈنگ کر کے بجلی کی بچت کی کوشش کی جاتی ہے۔خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ارباب بست وکشاد اور ذمہ داران کو زمینی حقائق اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے دوچار عوام کی حالت زار کا کس قدر علم اور اندازہ ہے۔کوئی دن ایسا نہیں گزر تا جب حکومت کی طرف سے یہ عندیہ نہ دیا جائے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جا چکا ہے اور یہ عندیہ اس تناظر میں نہایت معنی خیز محسوس ہوتا ہے کہ ایسا دعویٰ کرنے سے کسی کوروکا تو ہر گز نہیں جا سکتا لیکن یہ نشاندہی ضرور کی جا سکتی ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جاری ہے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ نے اہل وطن کو ایک ایسے عذاب کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے جس کے بیان کا احاطہ ممکن ہی نہیں موسم گرما کی شدت سے عوام کا جسمانی اور ذہنی سطح پر نہایت براحال ہے ۔ایک خیال تو یہ بھی ہے کہ ملک میں ضرورت کے مطابق بجلی موجود ہے، لوڈ شیڈنگ صرف اس وجہ سے کرنا پڑتی ہے کہ بڑے بڑے صارفین نے وسیع پیمانے پر بجلی چوری کے نیٹ ورک بنا رکھے ہیں،جن میں کمپنیوں کا عملہ بھی ملوث ہے۔ ان تمام شکایات پر توجہ دے کر لوڈشیڈنگ سے مستقل نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ کسی بھی ملک کی پائیدار ترقی کیلئے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے اور اس وقت اگر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں اقدمات اگر چہ کئے جار ہے ہیں تاہم انہیں ضروریات کو دیکھتے ہوئے ناکافی قرار دیا جاسکتا ہے ۔لو ڈشیڈنگ ایک ایسا مسئلہ بنا ہوا ہے جس سے بہت سے دیگر مسائل جڑے ہوئے اسلئے اسکا خاتمہ جلد از جلد ناگزیر ہے۔