امریکی ماہرین نے ایک نئی مصنوعی اینٹی باڈی تیار کرلی ہے جو ناول کورونا وائرس کے خلاف نہ صرف ڈھال کا کام کرسکتی ہے بلکہ اس سے پھیلنے والی بیماری کا علاج بھی کرسکتی ہے۔
فی الحال یہ اینٹی باڈی چوہوں پر کامیابی سے آزمائی گئی ہے تاہم اسے کورونا وائرس کے خلاف باقاعدہ طور پر استعمال ہونے میں مزید کئی آزمائشوں سے گزرنا ہوگا جس میں مزید چند سال لگ جائیں گے۔
سائنسدان برسوں سے جانتے ہیں کہ سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے خلیوں کی سطح پر ایک خاص طرح کا خامرہ ’’اے سی ای ٹو (ایس ٹو) اینزائم‘‘ موجود ہوتا ہے جو عام حالات میں مفید تو ہوتا ہے لیکن کورونا وائرس کو خلیے کے اندر داخل ہونے کےلیے راہداری بھی یہی خامرہ فراہم کرتا ہے۔
کورونا وائرس کی سطح پر بھی خاص طرح کے پروٹینی ابھار ہوتے ہیں جنہیں ’’اسپائک پروٹین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’’ایس ٹو‘‘ خامرے سے جڑ کر اسے خلیے میں داخلے کا راستہ کھولنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
یہ تمام معلومات مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین نے تجربہ گاہ میں کئی مصنوعی اینٹی باڈیز بنائیں جو کورونا وائرس کی اسپائک پروٹین کو جکڑ کر، وائرس کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرسکتی تھیں کہ جیسے وہ خلیے کے اندر داخل ہوچکا ہے۔ اس طرح وہ اپنے ہدف تک پہنچے بغیر ہی اپنا سارا جینیاتی مواد نکال باہر کردیتا اور اس کا حملہ ناکام ہوجاتا۔
یوں تو ان تمام مصنوعی اینٹی باڈیز نے کورونا وائرس کو روکنے اور تباہ کرنے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ان میں سے MDR504 نامی اینٹی باڈی سب سے بہتر ثابت ہوئی کیونکہ اس نے کورونا وائرس کی اسپائک پروٹین کو زیادہ سختی سے اور مؤثر انداز میں جکڑلیا تھا۔
اگر یہ مصنوعی اینٹی باڈی انسانی تجربات میں بھی اتنی ہی مفید اور کارآمد ثابت ہوئی تو امید ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اسے کورونا وائرس کی مؤثر ترین دوا کے طور پر استعمال کیا جانے لگے گا۔
اس تحقیق کی تفصیلات پری پرنٹ ویب سائٹ ’’بایو آرکائیو‘‘ (bioRxiV) پر حال ہی میں شائع ہوئی ہیں۔ البتہ ابھی اس تحقیق کو تصدیقی مراحل سے گزرنا باقی ہے۔