ایک وقت تھا جب پٹرول کی قیمتوں میں پیسوں کی صورت میں اضافہ کیا جاتا تھا لیکن اس بار ایک روپے نہیں بلکہ25روپے58پیسے پٹرول کی قیمت میں یکدم اضافہ کر کے عوام کو مہنگائی کی بے رحم موجوں پر تڑپنے کے لئے چھوڑ دیاگیا ہے پٹرول کی قیمتوں میں25روپے58پیسے ،ڈیزل کی قیمت میں17روپے 84پیسے جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں23روپے 50پیسے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔پٹرول کی نئی قیمت 100روپے 10پیسے جبکہ مٹی کے تیل کی نئی قیمت 59روپے6پیسے مقررکی گئی ہے ،یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جس تیزی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ کیا جارہا ہے اس سے عوام کی قوت خرید بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہے حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کیلئے یہ جواز پیش کیا جا تا ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کی بناءپر ایسا کرنا پڑا ۔انٹر نیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمت 41ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔حکومت کو فی لیٹر 51.27روپے کا پڑتا ہے ،تمام جائزٹیکسز کے بعد حکومت کو فی لیٹر 64روپے 67 پیسے فی لیٹر دینا چاہیئے ¾ نوٹیفکیشن میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی وجہ قرار دیا گیا ہے تاہم درحقیقت دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ذرائع کے مطابق نئے بجٹ میں دشواریوں کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پہلے اضافے کا فیصلہ کیا گیا۔
نجی ٹی وی کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری اضافے نہ کرنے کی صورت میں آئل مافیا کی طرف سے بدترین قلت کے امکانات تھے،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں کمی سے صنعتی شعبے کی طرف سے حکومت پر گیس کی قیمت میں فوری کمی کا دباو¿ تھا،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے گیس کی قیمت برقرار رکھنے میں مدد ملے گی‘ہر پانچ سال بعدقوم اپنے ہی منتخب نمائندوں کی ناز برداریوں کے لیے ٹیکسوں کی صورت میں اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر ایک کھرب انہتر ارب چھہتر کروڑ روپے ادا کرتے ہیں جبکہ ایک سو روپے کا موبائل لوڈ کرانے پر یہ قوم سالانہ تقریباً چار سو پچاس ارب روپے ادا کرتی ہے اس کے باوجود بھی انیس لاکھ باقاعدہ ٹیکس گزار ہیں اور چند ہزار کا طبقہ اشرافیہ قومی مسائل کو شری مادر سمجھ کر لوٹ رہا ہے جس کے آگے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکتا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ گئے ہیں ¾دال ،سبزیاں اور پھل ہر شے کی قیمت ڈالروں میں کر دی گئی ہے بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافے کا عندیہ دیا جا رہا ہے ‘5سال مدت کیلئے اقتدار میں آنے والی حکومت بھی روایتی حکومتوں کے نقشِ قدم پر چل نکلی ہے اور عوام کو کسی قسم کا ریلیف تک دینے کیلئے آمادہ نہیں ۔ ایک ایسا ملک جہاں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 40فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے وہاں پٹرول،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ غریب کی زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہوگا۔
اس پر کوئی دورائے نہیں ہو سکتیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے کے غریب عوام کسی طور پر متحمل نہیں ہو سکتے۔ڈالر کی پرواز 167روپے کو چھورہی ہے اور غریب کی یومیہ آمدن 2ڈالر سے بھی کم ہو تو وہ اپنی گزر بسر کیسے کرتا ہوگا۔ موجودہ حالات میں جبکہ حکومت پہلے ہی بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ کر چکی ہے اور سوئی گیس کی قیمتیں بھی کئی سو گنا بڑھا کر عوام کو شدید ذہنی کوفت اور مالی مشکلات کا شکار کر چکی ہیں۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ملک بھر میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگیا ۔دوسری جانب کاروباری سرگرمیاں بھی سرد مہری کی نذر ہو چکی ہیں۔یہ صورت حال صحت مند معاشرے اورملکی معاشی ترقی کے لئے کسی طور بھی سود مند نہیں¾بہتر یہی ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو سالانہ بجٹ میں ایک ہی بار طے کر دے۔اس طریقے سے کم از کم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک برس تک استحکام رہے گا،اس استحکام کا ملکی معیشت کے دیگر شعبوں پر مثبت اثر پڑے گا۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔