نہ جانے شام کب ہو جائے

وہ میرے ساتھ اپنے دکھ بانٹ رہی تھی جب کسی حساس انسان کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ پھر عمر کے اس حصے میںبھی ہو کہ جہاںزندگی کی دوپہر ہونے کو آئی ہے اور جانے شام کب آ جائے جس کا کسی کو پتہ نہیں تو اس کو ہربات سنجیدہ لگتی ہے اور وہ کئی بار اس کے پہلوﺅںکا جائزہ لیتا ہے ‘ بزرگ خاتون کا بھی یہی حال تھا ہماری دیسی کمیونٹی کے لوگ اپنے بزرگوں کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں بہت سی وجوہات ہوتی ہے آپ کہہ سکتے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیںوہ ان کی عزت کرتے ہیں وہ اسلام کے احکام کی پیروی کرتے ہیںاور سب سے بڑھ کر اپنے ماںباپ کو اکیلا چھوڑ دینے سے معاشرے کے طعنہ و تشنیع سے بھی بچنا چاہتے ہیں لیکن کچھ عقل مند بوڑھے ماںباپ ایسے ہوتے ہیں جو رویوں کے فرق کو سمجھتے ہیں ‘ اپنی عمروںکو دیکھتے ہیںحالات کی نزاکتوں کوسمجھتے ہیںاور خاموشی سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی جذباتی بوڑھے ہوتے ہیں جو اپنی بادشاہی اپنے وقت کا اقتداراپنا گھر بار کبھی نہیں بھول سکتے اور رویوں میں فر ق آ جانے کو اپنے دل کو لگا لیتے ہیں اور نہ صرف اپنی پہلے سے موجود دو چار بیماریوں کو مزیدبڑھاتے رہتے ہیںبلکہ اپنے رشتہ داروں کو بھی اپنے سے زیادہ دور کرنے کا موجب بنتے ہیں یہ بزرگ خاتون جن کے شوہر اب ان کےساتھ نہیں رہے اپنے خونی رشتوں کے ساتھ رہتی ہے جب سورج چاند جو بن پر تھے سب ان کے ارد گرد پروانوں کی طرح منڈلاتے تھے اوراب جب کہ وہ صر ف ان کے ہی سہارے پر ان کے گھروںمیں آکر رہنے لگی ہے اور ان کے کہنے پر اپنا گھربار فروخت کرکے اپنی جمع پونجی بھی تقسیم کر بیٹھی ہے بہت سارے رویوں کاشکار ہے اس لئے ہمیں ہر بزرگ سے یہ کہنا ہے کہ اپنی زندگی میںاپنے پاس اتنا سرمایہ ضرور رکھیں کہ اپنے اخراجات اگر اپنی مرضی سے خرچ کرنا چاہیںتو آپ کو آسانی ہو ‘اپنے ہاتھ سے سب کچھ کبھی بھی نہیںدے دینا چاہئے کچھ رشتوںکو چھوڑ کر جوبہت وفادار اورماں باپ کے فرمان بردار اور ان سے دلی محبت بھی کرتے ہیں باقی تمام انسانی کمزوریوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے سلوک اوراپنے رویے کے فرق کو یقینی بنا لیتے ہیں۔

 وہ جن بزرگوں پر غصہ کرتے ہیںیا وہ جن کو نظر انداز کرکے گزر جاتے ہیں یا وہ بچے جو کھانے کے چند ٹکڑے ان کے کمروںمیں پہنچا کر بچپن کا بہت سارا پیار لاڈ ‘ خدمت ‘ قربانی بھول چکے ہوتے ہیں وہ ان بھری جوانیوں میںبزرگوں کے جذبات اور احساسات کودراصل سمجھ نہیں رہے ہوتے شاید وہ اس وقت ضرور سمجھ جائیں گے جب انہی کی عمروں کو پہنچ جائیں گے جن پر آج ان کے بزرگ پہنچ چکے ہیں او ر اللہ نہ کرے وہ انہی رویوں کے مستحق ہوں جن پر آج وہ قائم ہو گئے ہیں نہ جانے کیوں ہم اپنے بزرگوں کے لئے موت ڈھونڈتے ہیں جیسے وہ جلدی مر جائیں گے ہم ان کی صحت مند زندگی کی دعا شاید نہیں کرتے بلکہ ایک خاص دن کے انتظار کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کورونا کی وباءکے بعد سوشل میڈیا پر بزرگوں کو خوفزدہ کرنے یا پھر ان کو بچانے کے بہتر انتظامات کرنے کےلئے ایک عجیب سی مہم جاری ہے کہ سب سے زیادہ خطرہ ساٹھ سال سے اوپر کے لوگوں کو ہے مغرب میں ایسی کوئی خوفزدہ کرنے والی بات نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے اور معاشرے کی لاپرواہی سے کئی سو بزرگ وباءکا شکار ہو کر زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ‘ نیو یارک اٹلی اور سپین میں ان بزرگوں کی تعداد کئی ہزار ہے بوڑھی خاتون اسبات سے نالاں تھی کہ ان خطروں کے پیش نظر میں نے پبلک میں ملناجلنا آنا جا چھوڑ دیا ہے لیکن میرے رشتہ دار پبلک کو گھر میںاکٹھے کرنے کے از حد شوقین ہیں اور وہ کسی طرح بھی وباءکے خطرے سے بچنے کے حفاظتی اقدامات سے محروم ہو گئی ہے اور اگر اپنے آپ کومحفوظ رکھنے کےلئے منہ سے کوئی جملہ بھی نکال دے تو اس کو سخت رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 ظاہر ہے میں اس بزرگ خاتون کوتسلی ہی دے سکتی تھی میںخود بھی عمر کے آس حصے میں ہوںجہاں ایک سے زیادہ بیماریاں مجھے بھی گھیرے ہوئی ہیںکبھی کبھی میںخود بھی خوفزدہ ہوتی ہوں۔ اس وباء نے س لئے ڈرا دیا ہے کہ ہسپتال جاﺅ تو پھر آپ مر گئے کس نے آپ کو دفن کیا ‘ کہاںدفن کیا کچھ معلوم نہیںہوتا اور یہ بھی بات بڑی خوفزدہ کرنے والی ہے نیویارک کے ایک بڑے ہسپتال میںکام کرنے والے پاکستانی نژاد ڈاکٹر کی ویڈیو سن کر میںبڑی خوفزدہ بھی ہوئی اور حیران بھی ہوئی کہ بظاہر تووہ پیغام دے رہا تھا وباءسے بچنے کےلئے حفاظتی اقدامات کرنے کا لیکن اس نے کہا کہ جو بھی بڑی عمر کے مریض آئے ہیں ہم ان کو خوراک کی نالیاں تو ضرور لگا دیتے ہیں لیکن وینٹی لیٹر ہم جوان لوگوں کو ترجیحاً لگاتے ہیں بزرگوں کو اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں بس وہ اسی کمرے میں پڑے پڑے اپنی آخری سانسیں لیتے ہیں اور ہم شیشے سے اشارہ کرکے اس نرس کو بھی باہر آنے کا کہہ دیتے ہیں جو اس آخری وقت میں اس کو دلاسہ دینے کےلئے موجود ہوتی ہے اور جب ہم دیکھتے ہیں جہاںزندگی کی ہلتی لکیریں خاموش ہو جاتی ہیں تو ہم بزرگ کی موت کو ڈکلیئر کر دیتے ہیں یعنی ایک بزرگ کو موت کے منہ میںجھونک دیتے ہیںکہ تم بوڑھے ہو تمہیں مرجانا چاہئے تمہارے ہونے نہ ہونے سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کسی جوا ن کو وینٹی لیٹر دے کر اس کی زندگی کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے ہسپتال کی حد تک یہ تمام اقدامات کرنا شاید ٹھیک ہو کیوںکہ وینٹی لیٹر کی کمی اس وباءمیںشدت کے ساتھ سامنے آئی ہے لیکن اس پیغام کو ایک ذمہ دار ڈاکٹرکی زبانی پبلک کرنا میرے خیال میں اس کے پیشے کے خلاف بات تھی نہ جانے اس نے کتنے بزرگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہو گا۔

 ہم نے خود دیکھا ہے کہ ہمارے کتنے ہی جوان ڈاکٹر ‘ نرسیں ‘ صحافی ‘ براڈ کاسٹر خدمت خلق کرنے والے لوگ اس وباءکے ہاتھوں مر گئے ہیںاور ہزاروں بزرگ زندہ سلامت موجود ہیں بے شک اللہ پاک زندگی اورموت کارکھولا ہے ‘ سپین میں بستر مرگ پر کورونا وباءکاشکار بزرگ شدت سے یہ خواہش کرنے لگا کہ مرنے سے پہلے ایک بار اپنے بچوںکو دیکھنا چاہتا ہوں رحم دل ڈاکٹرز اور نرسیں اس کی اس خواہش کااحترام کرتے ہوئے اسے کمرے میںاسپرے کرواتے ہیں اس کو شیشے کے خول میں قید کرتے ہیں یعنی اس کے بیڈکے آس پاس شیشے لگا کر اس کو محفوظ کر دیتے ہیں خود بھی پورے حفاظتی لباس پہن کر بزرگ کے بچوں کوفون کرکے اس کی آخری خواہش پورے کرنے کی التجا کرتے ہیں اور ان کویقین دلاتے ہیں کہ تمام حفاظتی انتظامات کے بعد ہی ان کو بلایا گیا ہے کیونکہ ان کا باپ ایک دن یا چند گھنٹوں کا اس دنیا میں مہمان ہے ڈاکٹرخوش تھے کہ وہ کسی مرنے والی کی آخری خواہش کو پورا کرنے جا رہے ہیں آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا ہاں اس کے بچوں نے باپ سے اس آخری ملاقات کورد کر دیا وہ ڈاکٹروں کی منت زاری کے بعد بھی موت کے خوف سے اپنے باپ کے وقت رخصت حق ادا کرنے سے محروم ہو گئے۔